Maktaba Wahhabi

330 - 503
قسم کے امورنمٹاتے رہے۔[1] پھر جب انہوں نے منصب خلافت سنبھال لیا تو منصب قضاء سے الگ ہو گئے اور دار الحکومت دمشق میں قاضیوں کا تقرر کر کے عدالتی اختیارات انہیں تفویض کر دئیے۔ دیگر شہروں کے ولاۃ بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عدالتی امور سے الگ ہو گئے، اموی خلفاء نے بنو امیہ کے پورے دور حکومت میں عدالتی امور کے حوالے سے یہی طریقہ اپنائے رکھا، دولت امویہ کے دار الحکومت میں بھی اور اس کے صوبوں اور اس کے شہروں میں بھی۔ اسی دوران خلفائے بنو امیہ کا تعلق تین امور کے علاوہ اسلامی قضاء سے منقطع رہا: ۱۔ دار الحکومت دمشق میں قضاۃ کا براہ راست تقرر کرنا:… ۲۔ قضاۃ کے اعمال و احکام ان کی تقرری و معزولی، مالی مراعات، حسن سیرت اور ان کے جاری کردہ عدالتی احکامات کی نگرانی کرنا، تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے فیصلے عدل و انصاف اور حق و صداقت پر مبنی ہوں، شرع و دین سے ہم آہنگ ہوں، اور ان میں ٹھوس عدالتی رویوں کا التزام کیا گیا ہو۔ ۳۔ مظالم اور احتساب کے فیصلوں پر نظر رکھنا، خلفاء بنو امیہ نے قضاء مظالم کو خاص اہمیت دے رکھی تھی اور اس کے لیے ایک کامل اور مستقل نظام وضع کیا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اموی دورِ حکومت میں عدلیہ کو آزادانہ حیثیت حاصل تھی یہاں تک کہ وہ خلیفہ اور والی کے دباؤ سے بھی آزاد تھی جنہیں قاضی کی تقرری اور اس کی معزولی کا اختیار حاصل تھا، مگر ان کا قاضی کے اعمال، اس کے اجتہاد اور فیصلوں میں کوئی عمل دخل نہیں تھا جبکہ وہ قاضیوں کے صادر کردہ احکامات کو نافذ کرنے کے پابند تھے۔[2] نباہی فرماتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ تھے جنہوں نے پورے طور سے قضاء سے الگ ہو کر اسے دوسروں کے حوالے کر دیا، دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی حکومت کے مرکز میں بھی قاضیوں کا تقرر کر رکھا تھا۔[3] ثالثاً:… قاضیوں کے لیے مالی مراعات یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عدالت کو حکومت سے الگ کرنے میں پہل کی تھی اور انہوں نے ہی سب سے پہلے قاضیوں کی تنخواہیں مقرر کی تھیں۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ جو کہ زہد و قناعت میں بڑی شہرت رکھتے ہیں انہوں نے قاضیوں کے بارے میں مصر پر اپنے عامل سے فرمایا: انہیں اتنی مالی مراعات دو جس سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں اور لوگوں کے سامنے اپنی ضروریات پیش کرنے کی ضرورت نہ رہے۔[4] یہ صورت حال عہد اموی میں بھی برقرار رہی اور قاضیوں کی تنخواہیں بیت المال سے ادا کی جاتی رہیں۔[5] ان کی مقدار بہت زیادہ تھی، البتہ مختلف شہروں اور حالات و ظروف کے حساب سے یہ مقدار مختلف تھی۔[6] شعبی قاضی شریح سے
Flag Counter