Maktaba Wahhabi

159 - 503
اس کے لیے فریقین کے مابین باقاعدہ ایک معاہدہ تحریر کیا گیا جس کی رو سے ان کے نمائندوں کو ماہ رمضان ۳۷ھ میں دومۃ الجندل کے مقام پر اکٹھا ہونا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے بعض لوگوں کی رائے میں ان کا یہ عمل ایسا گناہ تھا جو کہ موجب کفر تھا، لہٰذا انہیں اس سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا چاہیے، مگر جب آپ رضی اللہ عنہ نے ان کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے آپ کے خلاف بغاوت کر دی جس کی وجہ سے انہیں خوارج کے نام سے موسوم کیا گیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا تو انہوں نے ان سے مناظرہ اور جدل و جدال کیا مگر وہ بے سود رہا۔ پھر ان سے بذاتِ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مناظرہ کیا جس کے نتیجہ میں ان سے کچھ لوگ تو واپس لوٹ آئے مگر دوسروں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ان لوگوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ایسی تباہ کن جنگیں ہوئیں جن کی وجہ سے ان کا لشکر کمزور پڑ گیا اور ان کے رفقاء کی کمر ٹوٹ گئی، خوارج نے علی رضی اللہ عنہ کا تعاقب جاری رکھا یہاں تک کہ قتل کر ڈالا۔ قضیہ تحکیم تاریخ خلافت راشدہ کا اہم ترین موضوع ہے جس کی وجہ سے اکثر قلم کار سر پکڑ کر بیٹھ گئے جبکہ بعض مؤرخین نے بے بصیرتی سے کام لیتے ہوئے اسے اپنی تالیفات میں درج کر دیا اور اس کے لیے انہوں نے ان ضعیف اور موضوع روایات پر اعتماد کیا جنہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خصوصاً ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کی تنقیص و توہین کرنے کے لیے تراشا گیا جن کے بارے ان کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی سادہ لوح اور کمزور رائے کے مالک تھے اور یہ کہ وہ بہت جلد لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں کے دھوکے میں آ جاتے تھے اور یہ کہ وہ بڑی حد تک عاقبت نااندیش تھے، لہٰذا وہ قضیہ تحکیم میں عمرو بن العاصکی چال میں آ گئے، جبکہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ بڑے مکار اور دھوکہ باز قسم کے انسان تھے۔ ناقدین اسلام نے ان اوصاف ذمیمہ سے ان دو عظیم انسانوں کو متصف قرار دیا جنہیں مسلمانوں نے اپنے اندر پائے جانے والے اس بہت بڑے اختلاف کو دور کرنے کے لیے منتخب کیا جس نے ان کی بہت بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، دشمنان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے وضع کردہ ان روایات کو بہت سارے مؤرخین، محققین اور ادباء نے تاریخی حقائق کے طور سے تسلیم کیا اور عوام الناس نے بھی انہیں بلا سوچے سمجھے قبول کر لیا، پھر چونکہ ان روایات کو جذبات بھڑکانے والے دھوکہ دہی اور مکر و فریب کے حامل واقعات کا رنگ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں نے انہیں بڑی اہمیت دی اور مؤرخین نے انہیں مدوّن کرنے میں بڑی دلچسپی دکھائی۔آئندہ سطور میں ہم واقعہ تحکیم کی تفصیلات پر گفتگو کریں گے نہ کہ اصل واقعہ پر، اس لیے کہ وہ شک و شبہ سے بالاتر ایک تاریخی حقیقت ہے۔[1] خامسًا:… وثیقہ تحکیم کی نص بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۱۔ یہ معاہدہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ ، ان کے گروہ اور معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما اور ان کے گروہ کے درمیان ہے۔
Flag Counter