Maktaba Wahhabi

247 - 503
رابعاً:…کیا معاویہ رضی اللہ عنہ نے منبروں پر امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کی کھلی اجازت دے رکھی تھی؟ کتب تاریخ بتاتی ہیں کہ بنو امیہ کے ولاۃ و امراء عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کیا کرتے تھے۔ لوط بن یحییٰ سے ابن سعد کا روایت کردہ یہ اثر صحیح نہیں ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے قبل بنو امیہ کے امراء حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کیا کرتے تھے مگر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس سے روک دیا۔[1] اس اثر کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ایک راوی علی بن محمد مدائنی ضعیف ہے اور اس کا شیخ لوط بن یحییٰ بھی بہت زیادہ ضعیف ہے۔ اسے یحییٰ بن معین غیر ثقہ جبکہ ابو حاتم متروک الحدیث قرار دیتے ہیں۔ دارقطنی بھی اسے ضعیف اخباری بتاتے ہیں۔ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اسے غیر ثقہ قرار دیا ہے۔[2] اس نے زیادہ روایات ضعفاء اور مستور الحال لوگوں سے اخذ کی ہیں[3] اور وہ خود بھی روایات گھڑ لیا کرتا تھا۔ روافض نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ تہمت لگائی ہے کہ وہ لوگوں کو مساجد کے منبروں پر علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم اور لعن طعن کرنے پر اکسایا کرتے تھے۔ مگر ان کا یہ دعویٰ باطل ہے اور اس کی کوئی صحیح اساس نہیں ہے۔ تباہ کن بات تو یہ ہے کہ محققین نے اس کذب و افتراء کو نقد و تعدیل کے اصولوں پر پرکھے بغیر ہی قبول کر لیا یہاں تک کہ متاخرین کے نزدیک اس نے ایسی مسلمہ حقیقت کا روپ دھار لیا جس کے مناقشہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ جبکہ نہ تو یہ بات کسی صحیح روایت سے ثابت ہے اور نہ وہ روایات قابل اعتماد ہیں جنہیں دمیری یعقوبی اور ابو الفرج اصفہانی نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحیح تاریخ ان لوگوں کی مرویات کے خلاف کا اثبات کرتی ہے۔[4] وہ یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت کا احترام کرتے اور انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بنو امیہ کے منبروں پر علی رضی اللہ عنہ کو لعن طعن کرنا نہ تو حوادث و واقعات کی منطق سے ہم آہنگ ہے اور نہ متحارب فریقین کے مزاج و طبائع سے۔ اگر ہم بنو امیہ کی معاصر کتب تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان میں ہمیں ایسی کوئی بھی چیز نہیں ملتی۔ یہ حکایات ان متاخرین کی کتب میں نظر آتی ہیں جنہوں نے بنو عباس کے دورِ حکومت میں تاریخ کو مدوّن کیا اور جن کے پیش نظر جمہور مسلمانوں کی نظر میں بنو امیہ کی شہرت کو نقصان پہنچانا تھا۔ یہ بے سروپا باتیں مسعودی نے مروج الذہب میں اور اس کے علاوہ دیگر شیعہ مورخین نے لکھیں اور وہاں سے اہل سنت کی کتب تاریخ میں داخل ہو گئیں۔ جبکہ ان میں سے کوئی روایت بھی صریح اور صحیح نہیں ہے۔[5] اس دعویٰ کے اثبات کے لیے جرح سے محفوظ سند اور اعتراض سے محفوظ متن کی ضرورت ہے۔ محققین اور باحثین کے نزدیک اس دعویٰ کا وزن سبھی کے علم میں ہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ ان جیسی تہمتوں سے بہت دور اور مبرا ہیں۔ دین میں ان کی فضیلت ثابت شدہ حقیقت ہے۔ افراد امت میں ان کی سیرت قابل
Flag Counter