Maktaba Wahhabi

124 - 503
افسوس رہے گا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہو کر باغی گروہ کے ساتھ جنگ کیوں نہ کی۔[1] یہ روایت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کر رکھی تھی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما اس بات پر اپنی ندامت کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر باغی گروہ کے ساتھ جنگ نہ کی۔ یاد رہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو فتنہ کے دوران غیر جانبدار رہے اور کسی ایک گروہ کے ساتھ مل کر دوسرے گروہ سے لڑائی نہ کی۔ اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی ہوتی تو وہ اس بات پر ندامت کا اظہار کرتے اور اس کی صراحت بھی کرتے، اس لیے کہ امیر کی بیعت کرنا شرعاً واجب ہے اور ایسا نہ کرنے والے کو وعید سنائی گئی ہے۔ خود انہیں سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں امیر کی بیعت نہ ہوئی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[2] یہ معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل رہ کر جنگ کرنے سے مختلف ہے، اس لیے کہ اس بارے صحابہ میں اختلاف رہا ہے اور ان میں کچھ اس جنگ سے بالکل الگ تھلگ رہے تھے، دریں حالات یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اس مختلف فیہ جنگ میں شریک نہ ہونے پر تو نادم ہوں مگر ترک بیعت پر نادم نہ ہوں جبکہ اس بارے بڑی سخت وعید بھی وارد ہو۔ اس سے ان بعض مورخین کے اس قول کا بطلان ہوتا ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی۔ انہوں نے ان سے صرف بیعت ہی نہیں کی تھی بلکہ ان کا شمار ان کے مقرب لوگوں میں ہوتا تھا جنہیں وہ منصب ولایت تفویض کرنے اور ان سے تعاون حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ آپ جانتے تھے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما میرے سچے دوست اور خیرخواہ ہیں۔[3] جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے شام کی ولایت قبول کرنے سے معذرت کر لی تو امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ سہیل بن حنیف کو شام کا والی بنا کر بھیجا اور ابھی وہ مشارف شام تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے شہسواروں نے انہیں پکڑ لیا اور پھر کہا کہ اگر تمہیں عثمان رضی اللہ عنہ نے بھیجا ہے تو ہم تم کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اگر کسی اور نے بھیجا ہے تو پھر یہیں سے واپس لوٹ جائیں[4] اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بلادِ شام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت پر بڑے غضبناک تھے۔ اولاً:…صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس بارے میں اختلاف تھا کہ قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص کس طرح لیا جائے امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ اور طلحہ و زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف اور پھر علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف کا یہ سبب ہرگز نہیں تھا کہ ان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کوئی اعتراض تھا، ان لوگوں کا اس بات پہ اجماع تھا کہ علی رضی اللہ عنہ خلافت و ولایت کے زیاد حق دار ہیں۔ ابن حزم رقمطراز ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ نے
Flag Counter