Maktaba Wahhabi

424 - 503
ایک جنگل پر مشتمل تھی جو درندوں اور سانپوں سے بھرا پڑا تھا، انہوں نے ان سے جنگل کی صفائی کے لیے دعا کی تو ان میں سے کوئی ایک چیز بھی وہاں باقی نہ رہی۔ یہاں تک کہ درندے اپنے بچوں کو اٹھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔[1] یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اے اہل وادی! ہم ان شاء اللہ یہاں ڈیرے ڈالنے والے ہیں، لہٰذا تم یہاں سے نکل جاؤ۔ انہوں نے یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ ہم نے دیکھا کہ ہردرخت اور پتھر کے نیچے سے جانور نکل کر بھاگ کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ ہم وادی کے اندر اتر گئے، پھر انہوں نے لوگوں سے فرمایا: بسم اللہ پڑھ کر وادی میں اتر جاؤ۔[2] عقبہ بن عامر مستجاب الدعوات شخص تھے۔[3] جب بربر لوگوں کے ایک قبیلہ نے جانوروں کو اس طرح بچوں کو اٹھائے یہاں سے نقل مکانی کرتے دیکھا تو وہ اس سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ پھر لوگ درخت کاٹنے میں لگ گئے۔ عقبہ نے شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا تو ان کے حکم کی تعمیل میں قیروان شہر تعمیر کر دیا گیا اور اس میں جامع مسجد بھی بنا دی گئی۔ پھر لوگوں نے اپنے اپنے گھر تعمیر کیے اور مسجدیں بھی بنا لیں۔ یہ ۵۵ھ کی بات ہے۔ شہر کی تعمیر کے دوران عقبہ لشکر روانہ کرتے رہے اور مخالفین کے ساتھ برسر پیکار رہے جس کی وجہ سے بہت سارے بربر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ مسلمانوں کا دائرہ عمل وسیع ہو گیا، قیروان میں موجود مسلم سپاہ کو تقویت ملی، انہیں امن و اطمینان میسر آیا اور اس میں اسلام کی جڑیں مضبوط ہو گئیں۔[4] قیروان شہر کی منصوبہ بندی اسلامی انداز میں کی گئی۔ جامع مسجد سے متصل دار الامارہ قائم کیا گیا۔ ان دونوں کے درمیان سے قیروان کی مرکزی سڑک کا آغاز ہوتا ہے جو سماط اعظم کے نام سے موسوم ہے۔ مسجد اور دار الامارہ کے اردگرد وسیع دائرہ کی شکل میں خالی جگہ چھوڑی گئی تھی۔ افریقہ کے مختلف حصوں سے بربر قبائل قیروان کی طرف کھنچے چلے آئے اور اس کے گرد و نواح میں آباد ہو گئے۔ ان میں سے زیادہ تر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور عربی زبان، قرآن کریم اور دینی امور کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہو گئے، اس طرح ہم ۵۰-۵۵ھ کے درمیان شمالی افریقہ کو عربی رنگ میں رنگنے کی زور دار تحریک کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔[5] ۱۔ موضع قیروان کی خصوصیات: وہ سیاسی، عسکری، انتظامی اور دعوتی اسباب بڑے قوی تھے جنہوں نے عقبہ بن عامر کے دل میں قیروان کی جگہ کو اس پر شہر آباد کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ قیروان کی جگہ مندرجہ ذیل امتیازات کی حامل تھی: الف: اسے فسطاط میں قائم عسکری قیادت کے مرکز سے کوئی سمندر یا دریا الگ نہیں کرتا، یہ شہر خشکی کے اس راستے پر واقع ہے جو مصر میں فسطاط اور مغرب کو ملاتا ہے، یوں لگتا ہے کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ نظریہ اپنایا تھا کہ شہروں اور فوجی چھاؤنیوں کو اس انداز سے تعمیر کیا جائے کہ انہیں مدینہ منورہ
Flag Counter