Maktaba Wahhabi

386 - 503
موت کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتیں، ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرایا کرتا ہے۔‘‘[1] ۳۔ معاویہ رضی اللہ عنہ پر اہل مدینہ (انصار) سے بغض رکھنے کی تہمت، اس لیے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل تھے:… اس خبر کو ابن الاثیر[2] نے وارد کیا ہے، مگر اس کی سند ضعیف ہے، میں قبل ازیں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق فتنہ کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا موقف بیان کر چکا ہوں، اہل مدینہ پر یہ تہمت کس طرح لگائی جا سکتی ہے جبکہ کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نصرت و معاونت کے لیے انصار مدینہ کو ابھارتے ہوئے فرمایا تھا: اے گروہ انصار! اللہ کے دوبارہ انصار بنو، اس پر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کے دروازے پر کھڑے ہو گئے، زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ اندر گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: انصارِ مدینہ دروازے پر کھڑے ہیں، اگر آپ چاہیں تو ہم دوبارہ اللہ کے انصار بن سکتے ہیں۔[3] مگر انہوں نے قتل و قتال کو ردّ کر دیا اور فرمایا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، تم اس سے باز رہو۔[4] رہا ان کا یہ دعویٰ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ انصار سے اس لیے بغض رکھتے تھے کہ وہ حضرت عثمان کے قاتل تھے تو ان کا یہ دعویٰ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں انصار کے حقیقی موقف کی وجہ سے مردود ہے۔ علاوہ ازیں اس کی اس امر سے بھی تردید ہوتی ہے کہ انہوں نے انصار کو اپنے قریب رکھا اور انہیں بڑے اہم اور حساس عہدوں پر فائز کیا۔ اس کے کچھ شواہد مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ عنہ کو دمشق کے منصب پر فائز کیا،[5] نیز انہیں مصر میں اسلامی بحریہ کا امیر مقرر کیا۔[6] ۲۔ نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ کو کوفہ پر امیر متعین کیا۔[7] ۳۔ مسلمہ بن مخلد انصاری رضی اللہ عنہ کو ایک ساتھ مصر اور مغرب پر امیر مقرر کیا گیا۔[8] ۴۔ رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو طرابلس کا امیر بنایا گیا۔ [9] رابعاً:… مکہ مکرمہ ۱۔ خالد بن العاص بن ہشام رضی اللہ عنہ کی ولایت:… معاویہ رضی اللہ عنہ نے ۴۲ھ میں خالد بن العاص بن ہشام کو مکہ مکرمہ کا والی مقرر فرمایا۔ [10] مورخ طبری نے ۴۲،۴۳ھ میں مکہ مکرمہ کے ولاۃ کے نام بتانے کے بعد مکہ مکرمہ کے عمال کے نام ذکر کرنے سے [11] خاموشی اختیار کرتے ہوئے صرف اس عبارت پر اکتفا کیا ہے: اس سال
Flag Counter