Maktaba Wahhabi

100 - 503
آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے حلم و حوصلہ اور صلح جوئی کی وجہ سے انہیں قتل کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: ہم ان سے درگزر کریں گے، ان کے عذر کو قبول کریں گے اور کسی سے نہیں لڑیں گے یہاں تک کہ وہ کسی شرعی حدود کا ارتکاب کریں یا کفر کو ظاہر کریں۔[1] و:…کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کا مدینہ منورہ سے چلے جانا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین میں قریش کے سرکردہ لوگوں پر ان کی اجازت کے بغیر مدینہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں آباد ہونے پر پابندی لگا دی تھی۔ جب لوگوں نے ان سے اس بارے میں شکایت کی تو آپ نے فرمایا: اس طرح قریش اللہ کے مال پر اللہ کے دوسرے بندوں سے ہٹ کر قبضہ جمانا چاہتے ہیں مگر میں ہر ممکن طریقہ سے ان کا راستہ روکوں گا۔ میں قریش کو جہنم میں گرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔[2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مختلف مفتوحہ شہروں میں آباد ہونے سے خائف تھے، اگر مدینہ منورہ میں آباد مہاجرین میں سے کوئی شخص آپ کے پاس آ کر شہر سے باہر جانے کی اجازت طلب کرتا تو آپ اس سے فرماتے: تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو کر جہاد کرنے سے جو مقام و مرتب ملا وہ آج کے جہاد سے حاصل ہونے والے مقام و مرتبہ سے کہیں افضل ہے۔[3] جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے انہیں مدینہ منورہ سے نکل جانے کی اجازت دے دی۔ ز:…جاہلی عصبیت: ابن خلدون فرماتے ہیں: جب اسلامی فتوحات کی تکمیل ہو گئی، ملت اسلامیہ کی بادشاہت مکمل ہو گئی اور عرب لوگ بصرہ، کوفہ، شام اور مصر میں رہائش پذیر ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا اعزاز حاصل کرنے والے اور آپ کے آداب و سنن کی اتباع کرنے والے یہ لوگ تھے: انصار و مہاجرین، قریش، اہل حجاز اور یہ اعزاز حاصل کرنے والے دوسرے لوگ، جہاں تک دوسرے تمام عربوں کا تعلق ہے جیسا کہ بنوبکر بن وائل، عبدالقیس، ازد، کندہ، تمیم، قضاعہ، ربیعہ اور دوسرے لوگ تو ان میں سے صرف چند کو ہی شرف صحابیت حاصل ہو سکا۔ ح:…فتوحات اسلامیہ میں توقف: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اواخر میں بعض اسباب کی وجہ سے اسلامی فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور وہ فارس، افریقہ اور بلاد شام کے شمال میں آگے نہ بڑھ سکا۔ جس کے نتیجہ میں اموال غنیمت کی آمد کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ اس دوران بادیہ نشین لوگ سوال کرنے لگے کہ پہلی غنیمتیں کہاں گئیں؟ مفتوحہ اراضی کہاں گئی؟[4] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق مسلمانوں کے لیے وقف زمینوں میں ناجائز تصرف کرتے ہوئے انہیں اپنے پسندیدہ لوگوں کے نام الاٹ کر دیا ہے۔ اس قسم کی افواہوں نے
Flag Counter