Maktaba Wahhabi

261 - 503
ابن ابی ملیکہ کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کی اجازت لینے کے لیے آئے تو انہوں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ذکوان نامی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام باہر آیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مجھ سے ناراض ہیں مجھے ان کے پاس پہنچا۔ ذکوان نے اس کے لیے ان سے اصرار کیا تو انہوں نے اس کی اجازت دے دی۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کہنے لگے: امی جان! اللہ تم پر رحم فرمائے، آپ مجھ سے ناراض کیوں ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اس لیے کہ تم نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کروا ڈالا۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: … جہاں تک حجر اور ان کے ساتھیوں کا تعلق ہے تو مجھے ایک ایسے فتنہ کا خوف دامن گیر ہوا جس میں خون بہائے جاتے اور حرمتیں پامال کی جاتیں۔ آپ اس بات کو جانے دیں اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: و اللہ! میں نے تجھے چھوڑا۔ و اللہ! میں نے تجھے چھوڑا، و اللہ! میں نے تجھے چھوڑا۔[1] دوسری روایت میں ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا: کیا تم نے حجر کو قتل کر دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ام المومنین! میں نے لوگوں کی بہتری کے لیے ایک آدمی کے قتل کو ان میں فساد برپا کرنے کے لیے باقی چھوڑنے سے بہتر سمجھا۔[2] ۳۔ حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ندامت: مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کو حجر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں بات کرنے کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ جب عبدالرحمن ان کے پاس پہنچے تو وہ انہیں قتل کر چکے تھے، اس پر عبدالرحمن نے ان سے کہا: تم سے ابوسفیان کا حلم و حوصلہ کہاں غائب ہو گیا؟ انہوں نے جواب دیا: وہ اس وقت سے غائب ہوا جب سے میری قوم میں سے تم جیسے حلیم الطبع لوگ غائب ہو گئے۔[3] اس روایت کے تحت امام ذہبی فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حجر رضی اللہ عنہ کے قتل پر نادم ہوئے۔[4] اگرچہ حجر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے کئی جواز بتائے جاتے اور اس کے لیے کئی عذر پیش کیے جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلطی تھی۔ انہیں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک صحابی کے لیے وسیع ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اس غلطی کا انہیں بعد میں شدید احساس ہوا اور وہ اس پر زندگی بھر ندامت کا اظہار کرتے رہے۔[5] مروی ہے کہ انہوں نے اپنی موت کے وقت کہا: ابن ادبر (حجر بن عدی رضی اللہ عنہ ) کے حوالے سے میرا دن بڑا طویل ہو گا۔[6] ۴۔ مالک بن ہبیرہ کا موقف: معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مالک بن ہبیرہ سکونی رضی اللہ عنہ کی سفارش بھی قبول نہیں کی تھی۔ مالک اپنی قوم کے لوگوں کو ساتھ لے کر انہیں اور ان کے ساتھیوں کو رہائی دلانے کے لیے روانہ ہوئے تو ان
Flag Counter