Maktaba Wahhabi

82 - 503
ایک عظیم مثال ہے اور یہ وہ عظیم اخلاق ہے جس سے اسلام کی پہلی نسل متصف تھی اور یہی وہ امتیازی اوصاف ہیں جن کی وجہ سے انہیں اسلامی فتوحات کی عظیم کامیابیاں میسر آئیں اور امت اسلامیہ کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے میں ان کے حکام و قائدین کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ ان کا ذکر کس قدر دل آویز اور ان کی قربانیاں کتنی عظیم ہیں۔ وہ ظالم حکمرانوں کے خلاف کتنی بڑی قوت اور مساکین و ضعفاء پر کس قدر مہربان ، شفیق ثابت ہوئے۔[1] ۷۔ اہل قبرص صلح کا معاہدہ توڑ دیتے ہیں: ۳۲ھ رومیوں نے اہل قبرص پر اس بات کے لیے شدید دباؤ ڈالا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے رومی لشکر کی کشتیوں کی صورت میں مدد کریں۔ یوں انہوں نے اس جبر کے تحت مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ توڑ ڈالا۔ جب یہ خبر معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے جزیرہ پر قبضہ جمانے اور اسے مسلمانوں کے سلطان کے زیر نگین لانے کا پروگرام بنا لیا اور پھر اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے جزیرہ پر بھرپور انداز میں حملہ کر دیا۔ یہ حملہ ایک طرف سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر نے اور دوسری طرف سے عبداللہ بن سعد کے لشکر نے کیا۔ اس دوران دشمن کے بے شمار لوگ مارے گئے۔ متعدد کو قیدی بنا لیا گیا اور بہت سارا مال غنیمت ان کے ہاتھ لگا۔[2] آخرکار اسلامی قوت کے اس دباؤ کے تحت قبرص کا حاکم مسلمان فاتحین سے صلح کی درخواست کرنے پر مجبور ہو گیا، چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ صلح کے گزشتہ معاہدہ کو بحال کر دیا۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ اب جزیرہ میں کسی ایسے لشکر کو متعین کیا جائے جو اسے دشمن کی غارت گری سے محفوظ اور امن و امان کو برقرار رکھے تاکہ رومی مسلمانوں کے خلاف سرکشی کا مظاہرہ کرنے کی جرأت نہ کر سکیں، چنانچہ انہوں نے وہاں بارہ ہزار پر مشتمل ایک لشکر کو وہاں متعین کر دیا اور بعلبک سے ایک جماعت کو بھی وہاں منتقل کر دیا۔ پھر وہاں ایک شہر تعمیر کیا۔ اس میں ایک مسجد بنائی اور وہاں مامور فوجیوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ اب جزیرہ پُرامن تھا۔ مسلمان رومیوں کے اچانک حملوں سے محفوظ تھے۔ مگر پھر مسلمانوں نے دیکھا کہ اہل قبرص عسکری صلاحیت سے عاری ہیں اور وہ اپنے خلاف جنگ کرنے والوں کے سامنے بالکل کمزور ہیں۔ انہیں یہ بھی احساس ہوا کہ رومی ان کے معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے لیں گے اور اپنے مفادات کے لیے انہیں زیر کر لیں گے۔ دریں حالات ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں رومیوں کے ظلم سے تحفظ فراہم کیا جائے اور انہیں ان کے تسلط سے آزاد رکھا جائے۔ اس وقت اسماعیل بن عیاش نے فرمایا تھا: اہل قبرص کمزور اور مجبور و مقہور ہیں اگر انہیں اسی حال پر چھوڑ دیا گیا تو رومی ان پر غالب آ جائیں گے اور ان کی عورتوں پر تسلط جما لیں گے، چنانچہ ہم پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ ہم انہیں دشمن سے محفوظ رکھیں اور ان کی حفاظت کا بندوبست کریں۔[4]
Flag Counter