Maktaba Wahhabi

356 - 503
کہ انہوں نے اسلامی احکام کی مخالفت کی ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اسلام میں جھوٹا دعویٰ نہیں چلتا۔ جاہلیت کا معاملہ ختم ہو چکا۔ بچہ بستر والے کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘[1]خالد الغیث اپنے رسالہ ’’مرویات خلافۃ معاویۃ‘‘ میں اس تہمت کی یہ کہہ کر تردید کرتے ہیں: … جہاں تک معاویہ رضی اللہ عنہ پر اس تہمت کا تعلق ہے کہ انہوں نے زیاد کے نسب کو اپنے باپ کے نسب کے ساتھ ملا لیا، تو میں کسی ایسی صریح العبارت صحیح روایت سے آگاہ نہیں ہو سکا جو اس کی تاکید کرتی ہو، علاوہ ازیں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحبت و عدالت اور ان کی دین داری و فقاہت ان کے لیے اس امر سے مانع ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو ردّ کر دیں۔ خصوصاً جب کہ وہ خود اس حدیث کے راوی ہیں: ’’بچہ بستر والے کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘[2] دراصل یہ تہمت زیاد پر لگائی گئی تھی کہ اس نے اپنے نسب کو ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے نسب کے ساتھ ملایا تھا، اور اس کی دلیل ابوعثمان[3] کے طریق سے صحیح مسلم کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: جب زیاد نے یہ دعویٰ کیا تو میں ابوبکرہ سے ملا اور اس سے کہا: تم نے یہ کیا کہا؟ میں نے مسور بن ابی وقاص سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’جس شخص نے اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور باپ کا دعویٰ کیا جبکہ و جانتا ہو کہ یہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘ ابوبکرہ نے کہا: میں نے بھی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کی تھی۔[4] اس واقعہ کی تعلیق میں نووی فرماتے ہیں: اس کلام کا مطلب ابوبکرہ پر انکار کرنا تھا اور یہ اس لیے کہ زیاد مذکور زیاد بن ابوسفیان کے ساتھ معروف تھا، اسے زیاد بن ابیہ اور زیاد بن امہ بھی کہا جاتا تھا اور یہ ابوبکرہ کا اس کی ماں کی طرف سے بھائی تھا، اسی لیے عثمان نے ابوبکرہ سے کہا تھا کہ تم نے یہ کیا کہا؟ ابوبکرہ بھی اس بات کو ناپسند کرتا تھا جس کی وجہ سے اس نے زیاد سے علیحدگی بھی اختیار کر لی تھی اور اس سے کبھی بات نہ کرنے کی قسم بھی اٹھائی تھی۔ ممکن ہے کہ ابو عثمان کو ابوبکرہ کے اس انکار کا علم نہ ہوا اور اسی وجہ سے اس نے ابوبکرہ سے یہ بات کہہ دی ہو۔ یا اس کے اس قول کا مطلب یہ ہو کہ تیرے بھائی نے جو کچھ کیا وہ کس قدر برا ہے اور اس کی سزا کتنی سنگین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے جنت کو حرام قرار دیا ہے۔[5] اس طرح زیاد ہی مدعی علیہ قرار پاتا ہے۔ درحقیقت معاویہ رضی اللہ عنہ کا زیاد کو اپنے نسب کے ساتھ ملانے کا مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، اور اکثر مؤرخین کے نزدیک کتنے ہی ایسے دلائل موجود ہیں جن سے اس بات کا اثبات ہوتا ہے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے زیاد کی ماں سمیہ سے مباشرت کی تھی۔ سمیہ حارث بن کلاہ ثقفی کی لونڈی تھی اور وہ زمانہ جاہلیت میں جسم فروش تھی اور اس مباشرت کے نتیجے میں وہ زیاد
Flag Counter