Maktaba Wahhabi

354 - 503
ضرورت پڑی تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں معزول کر کے ۴۵ھ کے آغاز میں حارث بن عبداللہ ازدی کو بصرہ کا والی مقرر کر دیا، پھر چار ماہ بعد انہیں بھی معزول کر کے ان کی جگہ زیاد کو بصرہ کا والی بنا دیا گیا۔[1] ۳۔ زیاد بن ابیہ (۴۵-۵۳ھ):… الف: نسب:… ابو المغیرہ زیاد کا نسب انتہائی پیچیدہ ہے، اس کی ماں کا نام سمیہ تھا جو کہ ایک لونڈی تھی۔[2] مگر اس کے باپ پر مورخین کا اتفاق نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا اس کے نسب میں بھی اختلاف ہے۔ تاریخی مصادر میں اس کا نام کبھی زیاد بن سمیہ[3] بتایا جاتا ہے، کبھی زیاد بن عبید[4] ، کبھی زیاد الامیر[5] اور کبھی زیاد بن ابوسفیان[6] اکثر اوقات اسے زیاد بن ابیہ[7] سے ہی شناخت کیا جاتا ہے، اور یہ اس لیے کہ اس کے باپ میں شک واقع ہوا ہے۔[8] ب: زیاد کی معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے ساتھ صلح:… زیاد بن ابیہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے خراسان کا والی تھا اور وہ ان کے لیے ازحد مخلص تھا، معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں زیاد کو اپنی صف میں شامل کرنے کی بڑی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہے، پھر ان کی شہادت کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ کو اسے اپنی طرف مائل کرنے کا سنہری موقع ملا اور اس کے لیے انہوں نے کبھی ترغیب اور کبھی ترہیب کی زبان استعمال کی، اس دوسرے مرحلے پر زیاد نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرتے ہوئے مثبت موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد کے ساتھ رابطے کی کوشش کی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہ مشکل حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔ آخر کار مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ زیاد کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے اور اسے ان کی اطاعت میں داخل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ زیاد کے حوالے سے مغیرہ رضی اللہ عنہ کی یہ کامیابی معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی خدمت تھی، اس لیے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی زیاد تک رسائی یا اسے اپنے ماتحت کر لینا ایسی خون ریز جنگ کے بغیر بہت مشکل تھا جس کے بارے میں فریقین میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہ ہو کہ اس میں کون فائدے میں رہے گا۔[9]معاویہ رضی اللہ عنہ نے کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا اور طاقت کے استعمال سے اجتناب کیا اور عربوں کے چالاک اور ہوشیار آدمی کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیاد کو خوشی سے اپنی بیعت کرنے پر آمادہ کر لیا۔ جو آپ رضی اللہ عنہ کی حکمت و دانش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔[10]
Flag Counter