گھر والوں کو اور خصوصاً بچوں کو اچھے اخلاق اور اسلامی آداب کی پابندی کرائی جائے، اچھے اخلاق مثلاً صدق وصفا،سچائی وامانت داری،عفت وپاکدامنی، حیاء وشرم، جودوسخا، کرم و مہربانی و عہد ووفا....اورہر اس چیز سے اجتناب جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیاہے....!! پڑوسی اور ہمسایہ کے ساتھ حسن سلوک، رشتہ داروں اور قرابت داروں کے ساتھ حسن معاملہ و خوش اخلاقی، اورحسب استطاعت و ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کی مدد واعانت کرنا جیسے عمدہ اخلاق کی تعلیم دی جائے۔
اسلامی آداب کا سکھانا، مثلاً سلام کرنا، بشاشت وخندہ پیشانی سے دوسروں سے ملنا، دائیں ہاتھ سے کھانا، مسجد یا گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت شرعی آداب بجالانا اور خاص طور سے دعاؤں کا اہتمام کرنا،سفر کے وقت شرعی آداب بجالانا،والدین،اقارب،پڑوسیوں اور چھوٹوں کے ساتھ احسان کرنا وغیرہ۔
احادیث میں لونڈیوں اور غلاموں کو دینی تعلیم دینے پر ابھارا گیاہے، تو ایسی صورت میں آزاد اہل وعیال کو تعلیم دینے کی اہمیت اور دوبالا ہو جاتی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب’’ تعلیم الرجل أمتہ وأہلہ‘‘کے تحت اس حدیث نبوی کا ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
( (ثَلَاثَۃٌ لَہُمْ أَْجْرَانِ....وَرَجُلٌ کَانَتْ عِنْدَہٗ أُمَّۃٌ فَأَدَّبَہَا، فَأَحْسَنَ تَأْدِیْبَہَا، وَعَلَّمَہَا فَأَحْسَنَ تَعْلِیْمَہَا، ثُمَّ أَعْتَقَہَا فَتَزَوَّجَہَا فَلَہٗ أَجْرَانِ۔))
’’تین آدمی ایسے ہیں جن کے لیے دوہرا اجروثواب ہے ....ایک ایسا آدمی جس کے پاس لونڈی تھی، اس نے اسے اچھا ادب سکھایا اور اچھی تعلیم وتربیت دی، پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلی، تو اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
|