’’اپنی آواز کو پست رکھو کہ تمام آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی ہے۔‘‘
بچوں کو فضول گفتاری سے باز رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴾ (المومنون: ۳)
’’اور جو لغو اور بیہودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔‘‘
حدیث میں مذکور ہے کہ لغو اور بیہودہ باتیں کرنے والا شخص امت کے بدترین لوگوں میں سے ہے۔[1] ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ اور یوم آخرت پر جس کا ایمان ہو اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جس چیز سے اس کو واسطہ نہ ہو ادھر رخ نہ کرے۔[3]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس تیزی کے ساتھ گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر ارشاد فرماتے کہ گننے والا ہر لفظ کو گن لے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام الگ الگ ہوتا تھا کہ جسے سننے والا سمجھ لیتا تھا۔[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے مختصر کلام کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ اختصار بہتر طریقہ ہے۔[5] آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جو شخص لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے گفتگو کے اسلوب میں رد وبدل کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کا فدیہ اور اس کی توبہ قبول نہیں کرے گا۔[6]
گفتگو کے دوران جب کئی افراد ہوں تو ایک ہی شخص کی طرف توجہ نہ ہو بلکہ وقفہ وقفہ سے سب کی طرف توجہ کی جائے تاکہ کسی کو بے توجہی کی شکایت نہ ہو۔ کسی گفتگو کی خوبی یہ
|