اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ہم عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا آپ نے ہم کو سلام کیا۔[1]آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جب دو مسلمان ملیں اور مصافحہ کر کے آپس میں حمد واستغفار کریں تو جدا ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلط ملط گفتگو نہیں کرتے تھے۔ آپ جب بھی گفتگو کرتے تو ٹھہر ٹھہر کر اور ایک ایک بات کو الگ الگ کر کے کہتے تھے کہ سننے والوں کو یاد ہو جاتیں۔[3]آپ کی گفتگو فصیح، شیریں، پرتاثیر، خوشگوار، واضح اور غیر سریع ہوتی تھی۔
آپ ہمیشہ ایسی گفتگو کرتے جس میں بہتری ہوتی۔ جو بات ناپسند ہوتی اس کی ناخوشگواری آپ کے چہرے سے عیاں ہو جاتی، فحش گوئی اور مخول سے آپ کی زبان مبارک کبھی آلودہ نہیں ہوتی۔ کسی سے گفتگو کی جائے تو اس میں نرمی کا اسلوب اختیار کیا جائے، اللہ کو یہ طریقہ بہت پسند ہے۔ اس نے اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس بھتیجے ہوئے ہدایت کی کہ ﴿فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا﴾ (طٰہٰ: ۴۴) ’’پس تم دونوں اس سے نرم گفتگو کرنا۔‘‘ بچوں کو ہمیشہ اچھی سچی اور درست بات کہنے کی عادت ڈلوانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا ﴾ (البقرۃ: ۸۳) ’’اور لوگوں سے اچھی بات کہا کرو۔‘‘ ایک جگہ فرمایا:
﴿ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا () يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ ﴾ (الاحزاب: ۷۰۔ ۷۱)
’’اور درست بات کہا کرو، اللہ تمہارے اعمال کو درست کر دے گا۔‘‘
ایک جگہ فرمایا:
﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾ (لقمان: ۱۹)
|