دیگر ابنائے نوع کو بھی۔ اسی لیے شاعر مشرق کہتے ہیں :
چون من گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الٰہ را
’’جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں۔ اس لیے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ کہنے کی مشکلات کو جانتا ہوں۔‘‘
مربی اس تربیتی اصول کے ذریعے بچے کو فطرت کا اولین سبق اور کائنات کا راز سکھاتا ہے۔ اس کلمہ کے پڑھنے والوں، خود بچے کی شخصیت اور تمام اولاد آدم کی راہ میں جو مشکلات حائل ہیں انہیں دور کرنے کی ابتدا کرتا ہے۔ اور یہ درست ہے کہ تمام مشکلات کا علاج اسی کلمہ کی پیروی میں ہے۔
برطانیہ کا عظیم ماہر تعلیم ’’سیر برسی نن‘‘ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے ایک مقالہ میں لکھتا ہے: ’’تربیت کی تعریف میں لوگوں کے مختلف خیالات ہیں۔ لیکن جو اساسی فکر ان تمام خیالات پر حاوی ہے وہ یہ ہے کہ کسی قوم کے والدین یا مربی جس نظریہ حیات پر ایمان رکھتے ہیں آنے والی نسل کو اس کی اساس پر پروان چڑھائیں۔ مدرسہ کا فریضہ یہ ہے کہ روحانی قوی کو بچے پر اثر انداز ہونے کا موقع عطا کرے۔ یہی روحانی قوی ہیں۔ جن کا نظریہ حیات سے واسطہ ہوتا ہے اور یہ بچے کی ایسی تربیت کرتے ہیں جس سے وہ قومی زندگی کی حفاظت کرے اور اسے آگے بڑھائے۔‘‘
جان ڈیوی جس کا موجودہ امریکی نظام میں سب سے زیادہ اثر ہے اپنی کتاب ’’جمہوریت اور تربیت‘‘ میں لکھتا ہے: قوم کی زندگی تجدید پر منحصر ہے اور عمل تجدید متنوع طریقوں سے چھوٹے بچوں کی دینی تعلیم پر منحصر ہے جو ناخواندہ افراد میں سے ایسا صالح ورثہ تیار کرے جو ان کے وسائل اور نظریات کا حامل ہو۔ اور ان کو ان کی زندگی کے مناہج اور عقائد کے قالب میں ڈھال دے۔
|