ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( (مُرُوْا أَبْنَائَ کُمْ بِالصَّلَاۃِ لِسَبْعٍ وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا لِعَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ۔))[1]
’’سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دو (اور اگر نہ پڑھیں تو) دس سال کی عمر میں انہیں مارو اور ان کے بستر بھی علیحدہ کردو۔‘‘
یہ یاد رہے کہ بلا ضرورت مارنا افراط وتفریط اور حق سے تجاوز کرنا ہے، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو ایک ایسے مرد سے شادی نہ کرنے کی نصیحت کی جو اپنے کندھے سے لاٹھی کبھی نہیں اتارتا تھا، یعنی عورتوں کو بہت زیادہ مارنے والا تھا،لیکن اگر کوئی کفار ومشرکین کے بعض نظریات کی پیروی کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ادب وتادیب اور تربیت کے لیے مارنا مطلقاً درست نہیں ہے تو اس کا یہ زعم وگمان باطل اور بے بنیاد ہے اور شریعت اسلامیہ کی نصوص وتعلیمات کی مخالفت وتضحیک ہے۔
٭٭٭
|