Maktaba Wahhabi

82 - 411
نہیں لگایا۔ محدثین نے جو تواتر کی تعریف کی ہے وہ یہ ہے: ’’الکثرۃ أحد شروط التواتر بأن تکون العادۃ قد أحالت تواطؤھم علی الکذب، فلا معنی لتعیین العدد علی الصحیح۔‘‘ (شرح نخبۃ، ص: 8) یعنی متواتر میں اتنی کثرت ہو کہ عادتاً اتنے آدمی جھوٹ پر جمع نہ ہو سکیں۔ اُن میں عدد شرط نہیں۔ صحابہ کرام بالاتفاق فاتحہ کو داخل قرآن سمجھیں، خلافت کے حکم سے قرآن جمع ہو، اُس میں فاتحہ درج قرآن ہو، کسی حاضر غائب نے اعتراض نہ کیا ہو۔ تواتر اس پر ہونے میں کوئی کسر رہ گئی؟ سچ تو یہ ہے کہ ابن مسعود کے قول کی اگر کوئی صحیح تشریح نہ بھی ہو سکے تو بھی ساری مسلم قوم کے اجماع کے مقابلہ میں اُن کا تفرد مانع تواتر نہیں۔ پس آپ کا نتیجہ مندرجہ ذیل سرتا پا غلط ہوا۔ جو یہ ہے: ’’انہی وجوہ کی بنا پر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ فی الحقیقت سورۃ فاتحہ قرآن کا جزء یا حصہ نہیں ہے۔ بلکہ آنحضرت کے ایک طویل زمانہ کے انتخابات کا ایک عمدہ مجموعہ ہے۔‘‘ (ص:5) غنیمت ہے آپ کو یہ مجموعہ تو پسند آیا۔ سوامی دیانند کی طرح اس پر متعدد سوال تو نہیں سوجھے۔ ان معنی سے ہم آپ کے شکر گزار ہیں عمر دراز باد کہ ایں ہم غنیمت است[1] اسی طرح معوذتین[2] کی کیفیت ہے۔ ابن مسعود ان دو سورتوں کو قرآن میں نہ
Flag Counter