Maktaba Wahhabi

46 - 411
رکھ کر تفسیر کی جائے۔ میری یہ تفسیر ’’بیان الفرقان علی علم البیان‘‘ اسی طریقۂ کار کا نمونہ ہے۔‘‘ (بیان الفرقان علی علم البیان: 1/ 2) مولانا نے اس میں علومِ عربیہ صرف، لغت، معانی و بیان کو ملحوظ رکھتے ہوئے تفسیر کی ہے۔ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور معجز بیانی کے لیے یہی زبان سب سے زیادہ مناسب و موزوں تھی، تاکہ لوگوں کے دلوں پر اس کی عظمت و اعجاز کا نقش قائم ہو، جس کی طرف عام مفسرین نے کم توجہ کی تھی، اس لیے قرآن کی فصاحت و بلاغت کو اس میں زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مقدمہ میں علم معانی و بیان کے 172 اصول و قواعد کا ذکر کیا ہے، حواشی میں ان سب کی مثالیں قرآن مجید سے پیش کی ہیں، تفسیر کے اندر انھیں قواعد کی طرف نمبروں کے ذریعہ اشارہ کر دیا ہے، جیسا کہ ’’بیان الفرقان علی علم البیان‘‘ کے متعلق جناب فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عزیز شمس حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مولانا کا یہ طریقہ ہے کہ سورۃ کے شروع میں اس کے تمام مضامین کا بالاجمال ذکر کر دیتے ہیں، تاکہ قاری ان تمام باتوں پر مطلع ہوجائے جن کی طرف سورت میں اشارہ کیا گیا ہے، بعض مقامات پر عربی و فارسی کے اشعار بھی بطور استشہاد نقل کر دیتے ہیں، جو پہلی جلد (صفحہ: 8، 9، 10، 11، 14، 16، 24، 35، 41، 45، 49، 57) پر دیکھے جا سکتے ہیں۔‘‘(حیات ثنائی، ص: 554، حاشیہ نمبر 38) ضرورت کے وقت احادیث و آثار حتی کہ تورات سے بھی استفادہ کیا ہے، گو کہ تفسیر کی عبارت بہت مختصر ہے، جو ’’ما قل و دل‘‘ کی مثال ہے، تاہم توضیح کی خاطر کہیں کہیں حواشی میں بھی بعض مسائل پر گفتگو کی ہے، اس لیے مطالعہ کرنے والے کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ مولانا نے یہ تفسیر فنی نقطۂ نگاہ سے لکھی ہے، تمام تفسیری مباحث سمیٹنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
Flag Counter