Maktaba Wahhabi

390 - 411
تحقیق اور عقیدہ بتالیں۔ قرآن مجید کی آیت {مَا نَنْسَخْ} میں دو لفظ آئے ہیں۔ 1۔ ننسخ۔ 2۔ننس۔ کچھ شک نہیں کہ ان دونوں کے معنی میں فرق ہے۔ ’’نسخ‘‘ بالکل ہٹا دینا۔ ’’إنسائ‘‘ جس کا مضارع ’’ننسِ‘‘ ہے کے معنی ہیں التواء کرنا، یعنی کسی حکم کو اگر مطلقاً اٹھادیا جائے جو کسی خاص حالت میں جائز نہ ہو تو وہ نسخ ہے اور اگر کسی شرط سے کسی خاص حالت میں اس کی اجازت ہو تو بغیر اس شرط یا حالت کے وہ حکم ملتوی سمجھا جائے گا۔ ہم مانتے ہیں کہ قرآن مجید میں دونوں قسم کے احکام ہیں: 1۔ نسخ کی مثال حکم صدقہ عند النجویٰ ہے: {فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَۃً} رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کا ناپھوسی کرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ ’’کانا پھوسی کرنے سے پہلے صدقہ دے لیا کرو۔ ‘‘ جب اس کی غرض وغایت حاصل ہوگئی تو حکم منسوخ ہو گیا: {فَاِِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَتَابَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ} الاٰیۃ۔ انساء کی مثالیں بکثرت ہیں: (1) قومی ضعف کی حالت میں {کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ} ’’ہاتھ مت ہلائو‘‘ جو بوقتِ قوت حکم {قَاتِلُوْا} سے ملتوی ہے۔ آج ہندؤوں کے حق میں {قَاتِلُوْا} ملتوی ہے منسوخ نہیں۔ بوقتِ مرض حکم تیمم سے حکم وضو ملتوی ہے۔ بوقت حیض حائضہ کو حکم صیام ملتوی ہے۔ بعد حیض حکم بحال ہے۔ ان احکام کا نسخ اور التواء عین حکمت پر مبنی ہے، مگر پادری صاحب اس سے منکر ہیں۔ لطف یہ ہے کہ انجیل قرآن سے متفق ہے مگر پادری صاحب متفق نہیں۔ چنانچہ آپ بڑی آن بان سے لکھتے ہیں: ’’اگر آپ حوالات[1] بالا پر ایک غائر نگاہ ڈالیں تو آپ پر واضح ہو جائے گا
Flag Counter