Maktaba Wahhabi

372 - 411
رائے کے مطابق ہیں۔ اور اگر وہ معنی کیے جائیں جو اول المفسرین حضرت ابن عباس سے منقول ہیں تو نہ یہودی کا جواب صحیح ہوگا نہ آپ کی تائید۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کو آیت مباہلہ فرماتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر (مفسر) یہی اعتراض جو آپ نے یہود کی جانب سے کیا ہے نقل کر کے کہتے ہیں: ’’أما علیٰ تفسیر ابن عباس فلا یلزم علیہ شيء من ذلک بل قیل لھم کلام نصف إن کنتم تعتقدون أنکم أولیاء اللّٰه من دون الناس وأنکم أبناء اللّٰه وأحباؤہ وأنکم من أھل الجنۃ ومن عداکم من أھل النار، فباھلوا علی ذلک و ادعوا علی الکاذبین منکم أو من غیرکم‘‘ الخ (تفسیر ابن کثیر 1/180، زیرآیت موصوفہ جلد اول مصری برحاشیہ فتح البیان ص:219) یعنی ابن عباس کی تفسیرپر کوئی اعتراض نہیں بلکہ ان یہودیوں کو انصاف کی بات کہی گئی ہے کہ اگر اس بات کا اعتقاد رکھتے ہو کہ تم لوگ اللہ کے ولی ہو سب لوگوں کے ماسوا، اور یہ بھی تمھارا اعتقاد ہے کہ تم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہو اور یہ بھی یقین رکھتے ہو کہ تم ہی اہل جنت ہو اور تمھارے ماسوا سب جہنمی ہیں تو آئو اس اعتقاد پر ہم سے مباہلہ کرلو اس مباہلہ میں جھوٹوں کی ہلاکت کی دعا کرو خواہ تم میں سے ہوں یا تمھارے غیروں سے۔‘‘ ناظرین! اب یہ آیت آیت مباہلہ ہوئی محض یک طرفہ تمنائے موت نہ ہوئی۔ ان معنی سے تورات کا حوالہ مذکورہ بھی ان پر نہ لگے گا کیونکہ یہود سے محض موت کی تمنا کی خواہش نہیں کی گئی بلکہ جھوٹے کی تباہی پر مباہلہ چاہا گیا ہے۔ اب تو پادری صاحب دشمنان مسیح (یہود) کی حمایت نہ کریں گے۔ اس رکوع میں جو یہ لفظ آیا ہے: {وَ لَمَّا جَآئَ ھُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ}
Flag Counter