Maktaba Wahhabi

358 - 411
تکذیب نہیں کی، بلکہ حکایت کو صحیح جان کر ان کا محکی عنہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ہاں پادری صاحب نے اس رکوع کا اردو ترجمہ باقاعدہ اوربامحاورہ نہیں کیا۔ جس سے ہماری کوئی خاص غرض نہیں۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی نے اس رکوع میں اور تو کوئی بات قابل ذکر نہیں کی، صرف اتنا کیا کہ {قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا} کا ترجمہ یوں کیا ہے: ’’اور کہا کرو واسطے ہدایت سب لوگوں کے اچھی کلام اللہ تعالیٰ کی کتاب اللہ ضرور پڑھتے رہو۔‘‘ کتاب اللہ پڑھنے سے انکار نہیں، اس حکم کی ضرورت سے انکار نہیں۔ ہاں بات یہ ہے کہ اس آیت کا ترجمہ یہ صحیح نہیں کیونکہ کتاب اللہ پڑھنے کے لیے {اُتْلُ} کا صیغہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں یہی آیا ہے: {اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ}۔ نیز اس کی صفت میں {حُسْنًا} نہیں آنا چاہیے۔ {قُوْلُوْا} کے معنی کہنے کے ہیں۔ {حُسْنًا} کے معنی ہیں أحسن یعنی اچھی بات۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر دوسری جگہ یوں آئی ہے: { قَلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ} [الإسرا: 53] ’’میرے بندوں کو کہہ دو کہ وہ بات کہا کریں جو بہت اچھی ہو۔‘‘ امرتسری مولوی احمددین نے اپنے دماغی توازن کا ثبوت دیتے ہوئے اس رکوع میں بے موقع ایک مقامی بحث کو بری طرح ذکر کیا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ امرتسر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بحکم خدا اصل مطاع ہونے پر ان حضرت سے میری تحریری بحث ہوئی تھی۔ اصل مطاع کی تعریف یہ کی گئی تھی کہ جس کے حکم کی دلیل کسی اور کے قول سے تلاش کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ مثلاً کوئی عالم فتویٰ دے، اس سے سوال ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ حکم کہاں سے دیا؟ کوئی مجتہداستنباط کرے اس کی اصل
Flag Counter