Maktaba Wahhabi

326 - 411
ناظرین کرام! اگر ہم اس تفسیر کو عجائبات سے نہ کہیں تو کیا کہیں؟ آپ حضرات جونام تجویز کریں ہم منظور کریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا دل متوجہ نہیں ہوتا کہ ہم اس تفسیر کا جواب لکھیں۔ علما اور طلبہ خود سوچ لیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ مدارس دینیہ میں تفسیر بالرائے کی مثال کی جہاں ضرورت ہو مدرسین اس کو پیش کردیا کریں، اس ضرورت کے لیے کارآمد چیز ہے۔ مولوی احمد الدین صاحب امرتسری نے اس سے بھی عجیب تر بات کہی ہے، آپ نے اس مقتول سے حضرت ہارون برادر اکبر حضرت موسیٰ علیہ السلام مراد لیے ہیں۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’’جب بنی اسرائیل نے بیابان میں دوبارہ ایک جوان سانڈ کی حضرت موسیٰ سے پوشیدہ کرکے پوجا شروع کی اور حضرت موسیٰ کو اس کا پتہ لگ گیا اور انھوں نے حکم الٰہی سے ذبح کرا دیا، تو اس وقت بنی اسرائیل یہ سمجھے کہ ہماری یہ چغلی بھی غالباً حضرت ہارون نے ہی کھائی ہے، انھوں نے موقع پاکر اور حضرت ہارون کو الگ لے جاکر زد و کوب یا کسی اور ذریعہ سے قتل کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بر وقت پتہ لگ گیا تو انھوں نے ان کے جسم مبارک کو اٹھوا منگوایا، اور بنی اسرائیل سے اس قتل کے متعلق دریافت کیا۔ انھوں نے اپنے آپ سے اس کی مدافعت کی، اور باہمی سازش کرکے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اس قتل کا الزام لگایا اور کہا کہ اس نے پہلے بھی اپنے بھائی کا سر اور داڑھی پکڑ کر بے عزتی کی تھی، اسے ان کی شرکت بری معلوم ہوتی تھی۔ اللہ جل شانہ نے اس رکوع کے شروع میں فرمایا: {وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا} جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نے ایک عالی شان نفس (ہارون) کو قتل
Flag Counter