Maktaba Wahhabi

324 - 411
مقدمہ طے کیا جائے اس کی مثل کے الفاظ قانونی دفعہ سے گو مختلف ہوں لیکن فیصلہ اسی کے ماتحت ہوتا ہے۔ اس لیے پادری صاحب نے اعتراض جلدی میں کردیا۔ اس کے علاوہ اصل اصولی جواب ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ قرآن بائبل سے مطابقت کا ذمہ دار نہیں بلکہ جو کچھ قرآن کہے صحیح وہی ہے۔ اس وجہ کے علاوہ بحث تحریف میں بھی معقول وجہ ملے گی۔ مولوی محمد علی صاحب لاہوری احمدی نے لکھا ہے کہ اس نفس مقتول سے مراد حضرت مسیح علیہ السلام ہیں اور {اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا} کی عجیب وغریب تفسیر لکھی ہے۔ جس کی بابت یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ’’لاعین رأت ولا أذن سمعت‘‘ (نہ کسی آنکھ نے دیکھی نہ کسی کان نے سنی) آپ لکھتے ہیں: ’’اگر ایک طرف قرائن صفائی سے بتاتے ہیں کہ ان الفاظ میں کسی نبی کے قتل کا ذکر ہے تو دوسری طرف یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسا نبی جس کے قتل میں اختلاف ہوا ہو اور کامیابی نہ ہوئی ہو وہ مسیح علیہ السلام ہیں۔ گویا قوم یہود کی بے اعتدالیوں کا نقشہ کھینچا ہے کہ ایک طرف تو گائے تک کو ذبح کرنے میں اس قدر لیت ولعل کرتے ہیں اور دوسری طرف ایک عظیم الشان نبی کو قتل کرنے میں اس قدر دلیری ہے۔ حضرت مسیح کی طرف اشارہ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فوراً بعد فرمایا {ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ} پھر تمھارے دل اس کے بعد سخت ہوگئے اور قرآن شریف سے ہی ثابت ہے: { فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْ} [الحدید: 16] یعنی ایک لمبا زمانہ گزرنے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے تو پس یہ کوئی ایسا قتل ہے جو حضرت موسیٰ سے لمبا زمانہ گزرنے کے بعد وقوع میں آیا۔‘‘ (بیان القرآن، ص: 79)
Flag Counter