Maktaba Wahhabi

317 - 411
خان نے اس ’’بقرہ‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’وہ بیل بت پرستوں یا کافروں کے طریقہ پر چھوڑا ہوا تھا ۔۔۔ اسی کے ذبح کرڈالنے کا موسیٰ نے حکم دیا تھا اور بنی اسرائیل چاہتے تھے کہ وہ ذبح سے بچ جائے۔‘‘ (تفسیر احمدی، ص:101) سر سید مرحوم کے امرتسری مستفیض مولوی احمدالدین صاحب نے اسی قول کی تھوڑی سی تفصیل کی ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: ’’جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر گئے تو باوجود حضرت ہارون علیہ السلام کی موجودگی کے اور باوجود ان کی تمام کوششوں کے اپنے زیوروں سے بچھڑا بناکر اسے پوجتے رہے۔ اس سے صاف روشن ہے کہ وہ گائو پرستی پر فدا تھے۔ یہ عادت انھوں نے فرعون کی غلامی میں ملک مصر سے حاصل کی تھی جب ان کے پاس گائے کے بچھڑے کے بنانے کا سامان نہ رہا اور ان کی طبیعت پھر گائو پرستی پر مائل ہوئی تو اب کی دفعہ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چھپا کر ایک زندہ سانڈھ چھوڑا۔ پہلا تو گائے کے بچہ کا ایک ڈھانچہ تھا مگر یہ نوجوان سانڈھ تھا۔ پہلا جلا کر اڑایا گیا، یہ ذبح کیا گیا۔ پہلا کھلم کھلا پکڑا گیا تھا،دوسرے کے چھپانے کی تمام کوششیں کی گئیں۔‘‘ (تفسیر بیان للناس، ص:511، 512) آخر کلام میں سرسید نے لکھا ہے: ’’مفسرین نے بلاشبہ غلطی کی ہے جو یہ سمجھا ہے کہ یہ قصہ اگلی آیت {وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا} سے متعلق ہے۔ ‘‘ (تفسیر احمدی، ص:101) سر سیدکے امرتسری مستفیض نے بھی یوں لکھا ہے: ’’ جو لوگ ان دونوں کو ایک ہی جانتے ہیں بالکل غلطی پر ہیں۔‘‘ (تفسیر بیان، ص:512)
Flag Counter