Maktaba Wahhabi

315 - 411
’’ہوجا‘‘ پس وہ ہوجاتی ہے۔‘‘ یہ ایک اٹل قانون ہے کہ {کُنْ} اور {یَکُوْنُ} میں کوئی چیز حائل اور مانع نہیں ہوتی۔ پس اس قانون قدرت کے ماتحت غور کیجیے کہ {کُوْنُوْا قِرَدَۃً} کے بعد ’’کانوا قردۃ‘‘ ہونا ضروری ہے یا نہیں؟جواب دینے سے پہلے اس سے متصلہ آیت {فَجَعَلْنٰھَا نَکَالاً} کو ملحوظ رکھیں تو جواب یہی ہوگا کہ ’’صاروا قردۃ خاسئین‘‘ رہی یہ بات کہ موجودہ بندر انھی کی نسل سے ہیں یا اور ہیں یا وہ کہاں گئے؟ وغیرہ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت موصوفہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں بندر کی نوع موجود تھی۔ اس لیے یہ بندر ان کی نسل سے نہیں۔ ہاں ایک حدیث میں اس کا واضح جواب یوں آیا ہے کہ وہ بندر تین دن تک زندہ رہے تھے پھر وہ سارے مرگئے۔[1] غور کیجیے! ایک معمولی گائوں کا واقعہ ہے اور چند انسانوں کا، پھر زمانہ بھی ظلمت کا نہ آج کل کا ساکہ ادھر واقعہ ہوا اور اُدھر روزانہ اخبارات میں شائع ہوگیا۔ ایسی صورت میں یہ واقعہ اگر قومی طور پر مشہور نہ ہوتو اس میں کیا استبعاد؟ ہاں اس سے زیادہ مشہور ترین واقعہ سنیے جو ساری دنیا کی نظرمیں آیا ہوگا۔ انجیل میں لکھا ہے: ’’اور یسوع نے پھر بڑے زور سے چلا کر جان دی اوردیکھو ہیکل کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ گیا اور زمین کا نپی اورپتھر مڑک گئے اور قبریں کھل گئیں اور بہت لاشیں پاک لوگوں کی جو آرام میں تھے اُٹھیں اور اس کے اٹھنے کے بعد قبروں سے نکل کر اورمقدس شہر میں جاکر بہتوں کو نظر آئیں۔‘‘ (متی: 20: 5)
Flag Counter