Maktaba Wahhabi

307 - 411
{رَسُوْلُہٗ} کا عطف اللہ پر ہے حالانکہ وہ منصوب ہے، اور یہ مرفوع، مگر چونکہ اسم {اِنَّ} در اصل بحیثیت مبتدا مرفوع ہوتا ہے اس لیے اس کے محل پر عطف جائز ہے۔[1] چنانچہ عربیت کے امام صاحب کشاف اس آیت کے ماتحت لکھتے ہیں: ’’عطف علی أن المکسورۃ و اسمھا‘‘[2](تفسیر کشاف سورہ توبہ) اگر آپ غورکریں تو کافیہ کا یہ قانون کہ ’’العطف علی اللفظ وعلی المحل جائز‘‘[3]اس قسم کے مواقع کے لیے عام ہے۔ اس اصول سے {الصّٰبِئِیْنَ} بعمل {اِنَّ} اور {الصّٰبِئُوْنَ} مرفوع علی المحل دونوں طرح جائز ہے۔ امام رازی کا مقصود ان کی ساری عبارت دیکھنے سے سمجھ سکتے ہیں جو یہ ہے: ’’وفي سورۃ الحج {اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا وَ الصّٰبِئِیْنَ وَ النَّصٰرٰی وَ الْمَجُوْسَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدٌ} فھل في اختلاف ھذہ الآیات بتقدیم الصنوف وتأخیرھا ورفع الصابئین في آیۃ ونصبھا في اُخریٰ فائدۃ تقتضي ذلک‘‘ (تفسیر کبیر، جلد اول ص:382) یعنی ان قسموں میں سے ایک جگہ بعض کو آگے پھر اسے پیچھے کرنے اور کبھی کسی کو نصب دینے کبھی رفع دینے میں کیا فائدہ ہے؟ امام ممدوح از روئے علم نحو سوال نہیں کرتے بلکہ وہ پوچھتے ہیں کہ اس تفنن
Flag Counter