Maktaba Wahhabi

294 - 411
دیکھتے فرعونیوں کو غرق کردیا۔‘‘ اس آیت کی پوری تفسیر اور تشریح دوسری آیت کر رہی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: { فَاَوْحَیْنَآ اِِلٰی مُوْسٰٓی اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ} [الشعرائ: 63] ’’ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے سوٹے کے ساتھ دریا کو مار پس وہ دریا (اس کے مارنے سے ) پھٹ گیا تو ہر ایک حصہ اس کا ایک تودہ عظیم بن گیا۔‘‘ مقام شکر ہے کہ ہمارے اصل مخاطب پادری صاحب ہم سے متفق ہیں جو بائبل کی کتاب خروج کے باب 14؍ کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں: ’’درحقیقت بنی اسرائیل کا بحر قلزم سے پار ہوجانا جوار بھاٹے کے اثر سے نہیں بلکہ الٰہی طاقت اور حضرت موسیٰ کے معجزانہ اثر کی وجہ سے تھا۔‘‘ (ص: 184) یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ فنعم الوفاق! {فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ} کی تفسیر: آیت {فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ} کی تفسیر کے متعلق پادری صاحب نے تو مخالفانہ کلام نہیں کیا بلکہ اس کی تائید میں بائبل کی کتاب خروج باب (23) سے عبارت نقل کی ہے کہ حضرت موسیٰ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر مرد اپنے بھائی کو قتل کرے۔‘‘ مگر مولوی عبداللہ چکڑالوی نے قتل سے انکار کرکے قتل کے معنی میں لکھا ہے: ’’اس جگہ قتل سے مراد ہے نہایت ہی بڑھ کر اپنے آپ کو سخت ندامت وملامت کرنا۔‘‘ (ترجمہ چکڑالوی ص:41) اگر آپ بچھڑے کے پجاریوں کے فعل پر غور کرتے تو ایسا نہ کہتے ۔ ان کا فعل
Flag Counter