Maktaba Wahhabi

292 - 411
الفاظ کے علاوہ تفسیری حوالجات بھی نقل کردیے ہیں جن سے ناواقف آدمی کو شک ہو سکتا ہے کہ شائد وہ عبارات بھی قرآن کی ہیں۔ ان کی یہ غلطی صفحہ (153، 154، 155) پر مرقوم ہے حالانکہ آپ نے صفحہ کے دوکالم کر کے ایک کالم پر قرآن کی سرخی لکھی ہے اور دوسرے پر صحف مطہرہ کی سرخی دی ہے، اور قصہ موسیٰ علیہ السلام میں قرآن مجید کے مختلف مقامات سے الفاظ پورے نقل کیے ہیں جن پر نہ اعتراض کیا نہ سوال ۔ صرف تفسیر طبری سے ایک قول ابن عباس کا نقل کیاہے جس میں فرعونی حکم سے ابنائِ بنی اسرائیل کے قتل کیے جانے کی تفصیل درج ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس کے بعد تفسیر حقانی (دہلوی) سے ایک عبارت نقل کی ہے جس میں اسی طرح تفصیل کی ہے اور اعتراض کوئی نہیں کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پادری صاحب کا مقصد ان عبارات سے تفہیم قرآن ہے نہ کہ تردید قرآن۔ اس کے بعد آپ سرسید احمد خان مرحوم کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ سرسید کا قول ان کی تردید کے لیے نقل کیاہے کیونکہ سید صاحب مرحوم نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ کی لاٹھی سے دریانہیں پھٹا تھا بلکہ حسب قانون قدرت اس میں مدوجزر ہوا تھا۔ سرسید صاحب چونکہ مدوجزر کے قائل ہوئے ہیں اس لیے انھوں نے بحر اَحمر کی ایک چھوٹی سی راہ تجویز کی ہے جس سے قرآن مجید کو کوئی واسطہ ہی نہیں، ہاں پادری صاحب نے سرسید کا منشا خوب سمجھا۔ چنانچہ آپ نے لکھا ہے: ’’سر سید مرحوم چونکہ معجزہ کے قائل نہیں ہیں اس لیے بنی اسرائیل کے معجزانہ طور سے بحرِ قلزم کو پار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘ (ص: 184) میں کہتا ہوں کہ اسی طرح سر سید سے مستفیضین بھی اس دریا میں معمولی مدوجزر بتاتے ہیں۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب احمدی لاہوری لکھتے ہیں: ’’دریاؤں میں یہ بسا اوقات ہو جاتا ہے کہ ایک وقت میں دریا پایاب
Flag Counter