Maktaba Wahhabi

259 - 411
لیکن پادری صاحب کا منشا اتنے سے پورا نہیں ہو سکتا ، بلکہ آپ کا منشا یہ ہے کہ آدم نے زمانۂ نبوت میں گناہ کیا تھا، اس لیے بقول عیسائیاں کل انسان انھی میں انبیاء کرام بھی گناہگار ہیں۔ اس بات کا ثبوت ان کے ذمہ ہے کہ حضرت آدم کا فعل عصیان زمانہ نبوت میں تھا۔ کیونکہ علمائے اسلام میں سے بہت سے حضرات اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت آدم کا فعل قبل نبوت تھا۔ ثبوت اس کا قرآن مجید سے یوں ملتا ہے کہ عصیان آدم کے بعد متصل ہی یوں ارشاد ہے: { ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَ ھَدٰی} [طٰہٰ: 122] ’’پھر خدا نے اسے چن لیا اور توبہ قبول کی اور ہدایت کی۔‘‘ یہ اجتباء درجہ نبوت ہے، اس سے پہلے آدم نبی نہ تھے، ہاں احکام الٰہیہ کے مخاطب تھے، جیسے {کُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ} یہ احکام ان کی ذات خاص کے لیے تھے۔ نبی کی تعریف یہ ہے کہ وہ مخلوق کو ہدایت کرنے کے لیے مامور الٰہی ہوتا ہے۔ پس آدم کے جملہ افعال کا جواب اسی میں آگیا کچھ ضروری نہیں کہ ہم ان افعال کی تاویل کریں۔ ہاں عیسائیوں نے آدم اور حوا کے گناہوں کو یہاں تک بڑھایا ہے کہ ان کی سزا میں ناکردہ گناہ ساری اولاد کو بھی داخل سمجھتے ہیں ۔ تورات میں حضرت آدم کے گناہ اور سزا کا ذکر یوں ہے: ’’آدم نے کہا کہ اس عورت نے جسے تونے میری ساتھی کردیا مجھے اُس درخت سے دیا اور میں نے کھایا، تب خداوند خدا نے عورت سے کہا کہ تونے یہ کیاکیا، عورت بولی کہ سانپ نے مجھ کو بہکایا تو میں نے کھایا، اور خداوند خدا نے سانپ سے کہا اس واسطے کہ تو نے یہ کیا ہے تو سب مواشیوں اور میدان کے سب جانوروں سے ملعون ہوا۔ تو اپنے پیٹ
Flag Counter