Maktaba Wahhabi

256 - 411
کانت دار الخلد لما دخلھا إبلیس‘‘[1] (تفسیر فتح البیان جلد اول زیر آیت: یٰٓاٰدم اسکن) یعنی بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وہ باغ فلسطین میں تھا، ہبوط سے مرادہے ا س باغ سے نکل کر ہند میں آجانا، جب اس آیت میں ہبوط کے معنی نقل مکانی کے ہیں {اھْبِطُوْ مِصْرًا} (مصنف فتح البیان اس کی دلیل پیش کرتے ہیں) کیونکہ آدم کی پیدائش بالاتفاق زمین پر تھی، اور آسمان پر جانا اس قصہ میں کہیں مذکور نہیں، اگر آسمان پر گئے ہوتے تو ضرور ذکر ہوتا، کیونکہ وہ واقعہ بڑی نعمت تھا(جب آسمان پر جانا مذکور نہیں تو جنت آسمان پر کیسے ہوگی) دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر جنت بہشت موعودہ ہوتی تو شیطان اس میں داخل نہ ہوتا۔ کیسے صاف لفظوں میں آدم کی جنت کے زمین پر ہونے کا مدلل اعتراف ہے۔ اس پر بھی پادری صاحب خفا ہیں تو رحمدلی کی درخواست میں ہم ایک شعر ان کی نذرکرتے ہیں کیا نصیبا ہے ترا بلبل شیدا اُلٹا رحم کی جا اُنھیں آجاتا ہے غصہ اُلٹا ہاں جس آیت قرآنی کی طرف پادری صاحب نے اشارہ کرکے مسلمانوں کو مامور اور مجبور کیا ہے کہ درصورت شک ہونے کسی امرمیں اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) سے پوچھا کریں۔ وہ آیت نقل کرکے شکی لوگوں کی طرف سے ہم پادری صاحب کی خدمت میں سوال کرکے منتظر ہیں کہ پادری صاحب اس سوال کا جواب کیا دیتے ہیں۔ ارشاد ہے: {فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ
Flag Counter