Maktaba Wahhabi

233 - 411
ہیں جن کے خاص راستے ہوتے ہیں اور سیڑھی ہوتی ہے۔ جس پر چل کر اور جس پر چڑھ کر انسان اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔ مثلاً ایک انسان جب عادت ڈالتا ہے توہ بلا تکلف اپنے تمام کلام کو نظم کرسکتا ہے اور بلا تکلف اپنے تمام کلام کو مسجع کر سکتا ہے، یا ایسے متصل صنائع استعمال کر سکتا ہے جس کے کلام کا ایک حرف بھی اس سے خالی نہیں ہوتا ہے اور یہ سب عادت پر موقوف ہے۔ آپ ہمارے زمانے کے ادیبوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایک کتاب میں تمام محاسن کو جمع کرتے ہیں اور اسی طرح براعت کے تمام اقسام کو لکھ لیتے ہیں، پھر جب وہ کوئی قصیدہ، لکچر یا رسالہ لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اپنی اس تصنیف سے فائدہ اٹھاکر اپنے کلام کو اس سے آراستہ اور پیراستہ کرتے ہیں۔ لیکن اس شخص کے لیے جو اس علم کو یاد کرنے میں آگے بڑھا ہوا ہوتا ہے اس قسم کی تصانیف کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ جس شخص کو اس علم میں زیادہ اقتدار حاصل ہوتا ہے اسی قدر اس کا کلام زیادہ آراستہ اور پیراستہ ہوتا ہے۔ پس یہ وہ راستہ نہیں جس پر کوئی چل نہ سکے اور نہ وہ دروازہ ہے جو بند ہو، بلکہ ہر ایک شخص اپنی طبیعت کی استعداد کی مناسبت سے اس سے فائدہ اخذ کر سکتا ہے۔ ‘‘ (اعجاز قرآن باقلانی جلد اول ص: 148، 149 برحاشیہ اتقان) مذکورہ عبارت امام باقلانی کی ہے جس کی بابت پادری صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ باقلانی کے نزدیک بھی قرآن بے مثل نہیں۔ اس کا جواب ملاحظہ ہو۔ جواب: ناظرین! پادری صاحب کا دعویٰ اور دلیل ملاحظہ کریں کہ اس عبارت سے جو آپ نے نقل کی ہے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام باقلانی کے نزدیک قرآن بے مثل نہیں؟ مکرر ملاحظہ فرمائیں۔
Flag Counter