Maktaba Wahhabi

231 - 411
قرآن مجید میں پادری صاحب کو اس کی مثالیں نہیں ملیں حالانکہ بکثرت ہیں۔ چند أمثلہ معروض ہیں: ٭{ وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا} [الشوریٰ: 40] پہلی سیئہ بُرائی ہے۔ دوسری اس کا بدلہ جو بُرا نہیں بلکہ اچھا ہے۔ ٭{ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَ رِیْشًا وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ} [الأعراف: 26] اس آیت میں پہلے لباس سے مراد معمولی کپڑے ہیں دوسرے سے مراد اعمال صالحہ۔ ٭{ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ} [المائدۃ: 64] اللہ کا ہاتھ اور یہود کے ہاتھ مختلف الحقیقت ہیں اس لیے یہ صنعتِ تجنیس ہے۔ ٭{ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی} [الأنفال: 17] مخاطب کی رمی سے مراد ہاتھ سے مارنا اور خدا کی رمی سے مراد پہنچانا۔ ایک اور مثال بھی سن لیجیے۔ چونکہ وہ آپ کے خداوند یسوع اور ہمارے حضرت مسیح کے الفاظ میں ہے اس لیے بہت مفید ہوگی، بروز حشر سوال الٰہیؔ کے جواب میں عرض کریں گے: ٭{ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ} [المائدۃ: 116] اس آیت میں {نفسی} مضاف إلی المتکلم سے جو مراد ہے وہ مضاف الی اللہ سے مراد نہیں بلکہ غیر ہے۔ فافھم پادری صاحب! قرآن دانوں کے سامنے ایسے دعوے کرنا اور قادیان سے خلاف[1] آواز آئے تو خفا ہونا اس شعر کا مصداق نہیں
Flag Counter