Maktaba Wahhabi

204 - 411
تحقیق یہ ہے کہ یہاں کتاب مبین سے مراد علم باری تعالی ہے۔ کیونکہ آیت کے سیاق و سباق میں علم الٰہی کا ذکر ہے۔ پس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’خدا ہی کے پاس غیب کے خزانے ہیں ان کو وہی جانتا ہے ۔ اور وہ (خدا) جانتا ہے ہر اس چیز کو جو خشکی پر ہے اورجو دریائوں میں ہے، جو کوئی پتہ گرتا ہے خدا اسے جانتا ہے کوئی دانہ بھی اندھیری زمین میں ہو کوئی تر ہویا خشک سب کچھ کتاب مبین (لوح محفوظ میں مرقوم یا علم باری تعالیٰ) میں درج ہے۔‘‘ پس ان آیات میں کتاب مبین سے مراد قرآن مجید لینا ملحدمعترض کا الحاد اور ناقل کی بے پروائی اور ناانصافی ہے۔ علاوہ اس کے آئیے ہم آپ کی خاطر مانے لیتے ہیں کہ کتاب مبین سے مراد یہاں قرآن مجید ہے تاہم اعتراض نہیں۔ مگر اس کے سمجھنے کو ایک اصول کلام سمجھنا چاہیے۔ وہ یہ ہے۔ ہر مصنف اپنی تصنیف میں ایک ہی علم کے مسائل لکھتا ہے، اسے دوسرے فن سے مطلب نہیں ہوتا۔ مثلاً کافیہ جو علم نحو کی ایک مستند کتاب ہے اس کو جامع کتاب کہا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس میں علم نحو کے ضروری مسائل سب لکھے گئے ہیں۔ لیکن منطق کا ایک مسئلہ بھی اس میں مذکور نہیں۔ تو کیا ’’کافیہ‘‘ کا منطق سے خالی ہونا اس کی جامعیت کے خلاف ہے؟ آپ کے سوا کوئی کہے گا؟ ٹھیک اسی طرح قرآن ایک دینی کتاب ہے اس میں دینی مسائل مذکور ہوں گے۔ ان ہی کے لحاظ سے وہ جامع کتاب ہے۔ اس میں طبعیات یا فلکیات یا طبیات کا مذکور نہ ہونا اسے جامعیت سے گرا نہیں سکتا۔ ایسا کہنا ملحدوں کے منہ سے تو تعجب نہیں مگر ایک مذہبی ماہر کے قلم سے نکلنا سخت تعجب خیز ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہی بلکہ اس سے زیادہ زور دار لفظ
Flag Counter