Maktaba Wahhabi

139 - 411
اپنے مضمون کو طول دینے کے لیے بے تعلق باتیں کہتے جاتے ہیں۔ سنیے! ناظرین! پادری صاحب کا کمال ہے کہ اعتراض تفسیر کبیر سے لیتے ہیں مگر جواب جو تفسیر مذکور میں درج ہوتا ہے اُسے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمیں چونکہ آپ کی خاطر منظور ہے اس لیے یہ سمجھ کر کہ تفسیر کبیر میں جو جواب ہے وہ تو آپ دیکھ چکے ہیں اس لیے کوئی نیا جواب آپ کو دیں تاکہ آپ کی تسلی ہو۔ پس سنیے! کسی کتاب کے حق میں یہ کہا جائے کہ صرف و نحو پڑھنے والوں کے لیے راہنما ہے تو اُس میں کیا ہونا چاہیے؟ اور اگر کسی کتاب میں یہ ذکر ہو کہ مسائل فقہیہ جاننے والوں کے لیے معلم ہے، تو اُس میں کیا مذکور ہونا چاہیے؟ اور اگر کسی میں یہ ذکر ہو کہ انگریزی پڑھنے والوں کے لیے ٹیچر ہے، تو اُس میں کیا مذکور ہونا چاہیے؟ ان تینوں سوالوں کے جواب گو صاف ہیں تاہم، ہم خود ہی جواب بتاتے ہیں۔ پہلی کتاب میں صرف و نحو کے مسائل بآسان صورت مذکور ہونے چاہییں ۔ دوسری میں فقہ کے۔ تیسری میں انگریزی زبان کے۔ اس اصول کے مطابق دیکھنا یہ چاہیے کہ آیات مذکورہ میں جو آیا ہے کہ یہ کتاب متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ پھر متقیوں کی تعریف اور توصیف کی ہے، جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، خیرات کرتے ہیں، قرآن کو اور پہلی کتابوں کو مانتے ہیں وغیرہ، یہ متقیوں کے کام ہیں۔ بماتحت اصول مذکورہ آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کاموں کی ہدایات قرآن مجید میں دکھائو؟ اگر یہ سوال ہوتا تو معقول ہوتا۔ ہم بھی خوشی بخوشی آپ کو ان کاموں کے متعلق قرآن مجید میں احکام دکھاتے۔ بر خلاف اس کے آپ نے جو فرمایاوہ ناظرین کے سامنے ہے، ہمارے خیال میں بماتحت اصول مذکورہ یہ سوال اس جگہ سے بالکل اجنبی ہے۔ تاہم آپ کی خاطر جواب دیتے ہیں۔ کیوں؟ یار کا پاس نزاکت دل ناشاد رہے نالہ رُکتا ہوا تھمتی ہوئی فریاد رہے
Flag Counter