Maktaba Wahhabi

102 - 411
ماخوذ بتاتے ہیں، بلکہ سارے قرآن کو بائبل سے ماخوذ بتاتے ہیں۔ ہم پادری صاحب کی اس کوشش کے اس لیے مشکور ہیں کہ آپ اسی طریقہ سے قرآن عیسائیوں میں نہ صرف پہنچا رہے ہیں بلکہ عیسائیوں کا معترضانہ منہ بند کر رہے ہیں کہ قرآنی تعلیم پر اعتراض نہ کرو بلکہ اس کی اصلیت تسلیم کرو۔ ہاں دوسری جانب سے ہم جواب دیتے ہیں جو اُن کی مخفی غرض ہے کہ بائبل کے ہوتے ہوئے قرآن شریف کی حاجت نہ تھی۔ یہ سلسلہ در اصل پادری ٹھاکر داس سے چلا ہے جنھوں نے ایک کتاب اسی عنوان سے لکھی تھی: ’’عدم ضرورتِ قرآن‘‘۔ پادری ٹھاکر داس کی کتاب کا جواب تو ہماری کتاب ’’تقابل ثلاثہ‘‘ میں ملتا ہے۔ پادری صاحب (مخاطب ) کو جواب یہ ہے کہ آپ نے علم بلاغت کی تعریف پر غورکیا ہوتا تو یہ نہ کہتے۔ بلیغ قصیدہ وہ ہے جس کے سب اجزاء متصلہ بلیغ ہوں۔ یہ نہیں کہ اُس میں ایک بلیغ مصرعہ کہیں کا ہو اور دوسرا کہیں کا، اور اُس پر ناظم یہ دعویٰ کرے کہ یہ مصرعہ ملا کر میرا سارا قصیدہ بلیغ ہے۔ سورہ فاتحہ اگر کتب سابقہ سے ماخوذ ہے تو کوئی حرج نہیں۔ مگر ایک حدیث میں آیا ہے کہ سورۂ فاتحہ جیسی کوئی سورت پہلے نہیں اُتری۔[1] اس حدیث کی توجیہ کرنا اور جواب دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پس حدیث شریف میں جو سورہ فاتحہ کی نسبت یہ فرمایا ہے تو مجموعی حیثیت سے ہے نہ کہ اجزائِ متفرقہ کی حیثیت سے۔جس طرح بلیغ اور غیر بلیغ کلام پر حکم اُس کی مجموعی حیثیت اور ہیئت سے ہوتا ہے نہ کہ اجزائِ متفرقہ سے۔ پادری صاحب کو عرب کے مسلمہ شاعر امرؤ القیس کی بلاغت مسلّمہ ہے۔ ہم پوچھتے ہیں امرؤ القیس کے قصیدہ کے سارے فقرات بلکہ الفاظ فصیحہ لے کر کوئی شخص غیر بلیغ مختلف صُوَر میں قصیدہ مرتب کرے، کیا وہ بھی امرؤ القیس کے برابر ہوجائے گا؟
Flag Counter