Maktaba Wahhabi

91 - 503
عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں روم سے جنگ کرنے کے لیے ایک لشکر تیار کیا اور اس پر اسامہ بن زید کو عامل مقرر فرمایا۔[1] پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس لشکر کی روانگی پر اصرار کیا مگر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چاہتے تھے کہ اس لشکر کا اسامہ کی جگہ کسی اور کو قائد بنایا جائے۔ انہوں نے اس بارے میں عمر رضی اللہ عنہ سے بات کی تاکہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات کریں مگر جب انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی تو غضبناک ہو کر عمر رضی اللہ عنہ سے فرمانے لگے: عمر! اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل مقرر فرمایا تھا۔ اب تم یہ چاہتے ہو کہ اسے میں اس عہدے سے معزول کر دوں۔[2] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے فرمایا تھا: میں نے صرف ذمہ دار اور پسندیدہ لوگوں کو عامل بنایا، یہاں ان کے شہر والے اور ماتحت موجود ہیں تم ان کے بارے میں ان سے پوچھ لو، اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ اس سے پہلے ان سے زیادہ کم عمر لوگوں کو عامل مقرر کیا گیا اور آج میرے لیے جو بات کی جا رہی ہے اس سے زیادہ سخت بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی گئی تھی، کیا یہ درست نہیں ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ بالکل درست ہے۔ لوگ دوسروں پر ایسے الزامات لگاتے ہیں جن کی وہ وضاحت نہیں کر پاتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف ذمہ دار اور عادل لوگوں کو عامل بنایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عتاب بن اسید کو مکہ مکرمہ کا عامل مقرر فرمایا اس وقت ان کی عمر صرف بیس سال تھی۔[3] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شہروں کے والی شرعی امور سے ناواقف نہیں ہوتے تھے، وہ دین پر عمل کرنے میں کوتاہی کے مرتکب نہیں ہوتے تھے اور ان سے گناہوں کا صدور ہوا بھی تو انہوں نے بہت ساری نیکیاں بھی کی تھیں، پھر یہ گناہ ان کی ذات سے متعلق ہوا کرتے تھے، مسلم معاشرہ میں ان کے اثرات مرتب نہیں ہوتے تھے۔ جب ہم نے ان کے آثار و اعمال کا جائزہ لیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے لیے بڑے بڑے فوائد کے حامل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ولاۃ الامور کے ہاتھوں پر لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ان کی فتوحات کی وجہ سے بڑے بڑے وسیع و عریض علاقے مملکت اسلامیہ میں شامل ہوئے۔ اگر وہ شجاعت و بسالت اور دین سے متصف نہ ہوتے جو انہیں جہاد کی ترغیب دلایا کرتے تھے تو وہ اس جہاد کے لیے لشکروں کی قیادت نہ کرتے جس میں ہلاکت کا خدشہ رہتا ہے اور آرام و راحت اور دنیوی ساز و سامان کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ جب میں نے عمال کی سیرت و کردار کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ ان سب لوگوں نے اپنے زیر ولایت علاقوں کے آس پاس اسلامی فتوحات کے دائرے کو وسعت دی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان فضائل و مناقب اور صفات حسنہ سے بھی متصف تھے جو انسان کو قیادت کے اہل بناتی ہیں۔ میں نے اپنی کتاب کی ایک مستقل فصل میں ولاۃ عثمان رضی اللہ عنہ پر روشنی ڈالی ہے۔[4]
Flag Counter