Maktaba Wahhabi

88 - 503
اس کی اجازت دے دی۔[1] بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے شام سے واپس آنے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ مدینہ منورہ میں ان کی ہمسائیگی میں رہیں، پھر جب وہ شام سے واپس آئے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے تمہیں اچھے مقصد کے لیے یہاں آنے کو کہا تھا، آپ کو مدینہ میں ہماری ہمسائیگی میں رہنا چاہیے۔[2] عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بھی فرمایا: آپ میرے پاس رہیں تاکہ ہم صبح و شام ملاقات کرتے رہا کریں۔[3] کیا ان سے ایسی باتیں کرنے والا انہیں جلاوطن کر سکتا ہے؟[4] انہیں ربذہ کے مقام پر جلاوطن کرنے کی ایک ہی روایت ہے جسے ابن سعد نے روایت کیا، مگر اس کے ایک راوی بریدہ بن سفیان اسلمی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ قوی نہیں ہے۔ اس میں رافضیت بھی تھی۔ کیا ایک رافضی کی ایسی روایت قبول کی جا سکتی ہے جو صحیح اور حسن روایات سے متعارض ہو؟[5] رافضیوں نے اس حادثہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مشہور کر دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو ربذہ جلاوطن کر دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کرنے والوں نے بھی اسے بہانہ بنا کر ان پر الزام لگایا یا اسے ان کے خلاف خروج کو وجہ جواز قرار دیا۔[6] شیعہ مؤلف ابن مطہر الحلی متوفی ۷۲۶ھ نے بھی ان پر یہی الزام لگایا بلکہ اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے تکلیف دہ انداز میں ابوذر رضی اللہ عنہ کو مارا پیٹا۔ مگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھرپور اور جامع انداز میں اس کے اس الزام کی تردید ہے۔[7]سلف صالحین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے۔ جب حسن بصری سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ دریافت کیا گیا کہ کیا انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے نکال دیا تھا؟ تو انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی۔[8] جب ابن سیرین کے سامنے اس امر کا تذکرہ کیا جاتا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے نکال دیا۔ تو وہ اس سے شدید طورسے متاثر ہوتے اور فرماتے: وہ مدینہ سے اپنی مرضی سے گئے تھے۔ انہیں عثمان رضی اللہ عنہ نے نہیں نکالا تھا۔[9] اور جیسا کہ اس سے پہلے بھی صحیح الاسناد روایت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ بکثرت ان کے پاس جمع ہو جاتے ہیں تو وہ کسی فتنہ کے رونما ہونے سے ڈر گئے تو انہوں نے اس بات کا ذکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے کیا جس سے ان کا مقصود یہاں سے نکل جانے کی اجازت طلب کرنا تھا جس کی انہوں نے اجازت دے دی۔[10] ابوذر رضی اللہ عنہ کسی بھی طرح یہودی الاصل عبداللہ بن سبا کی آراء سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ وفات تک ربذہ میں ہی مقیم رہے۔ انہوں نے فتنہ کے ایام میں مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ [11] ان سے فتنہ کے دوران اس میں کوئی کردار ادا کرنے سے نہی پر مشتمل کئی احادیث بھی روایت کیں۔ [12] ابوذر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد خلیفہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان کے
Flag Counter