Maktaba Wahhabi

87 - 503
اس دوران بوسیدہ سے کپڑوں میں ملبوس پراگندہ بالوں اور عام سی ہیئت والا ایک آدمی آیا اور ان کے پاس کھڑا ہو کر انہیں سلام کیا، پھر فرمانے لگا: خزانہ جمع کرنے والوں کو گرم پتھر کی بشارت دے دو، وہ پتھر ان پر جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، اسے ان کی چھاتی کی نوک پر رکھ دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ان کے کندھے کی نرم ہڈی کے پار ہو جائے گا، اسے کندھے کی نرم ہڈی پر رکھا جائے گا یہاں تک چھاتی کی نوک سے پار ہو جائے گا، اسی طرح وہ پتھر ڈھلکتا رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پیٹھ پھیری اور ایک ستون کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے چلا اور اس کے پاس جا بیٹھا، میں نہیں جانتا تھا کہ یہ شخص کون ہے۔ میں نے اس سے کہا: میرے خیال میں تمہاری اس بات کی وجہ سے یہ لوگ ناراض ہو گئے ہیں، اس نے کہا: یہ لوگ تو بے وقوف ہیں۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے استدلال کیا: ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، اگر ہو تو میں وہ سارے کا سارا خرچ کر دوں بجز تین اشرفیوں کے۔‘‘[1] د: جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ابوذر رضی اللہ عنہ کے موقف کے خلاف اس وعید کو مانعین زکوٰۃ پر محمول کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے، پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے، پانچ وسق سے کم غلہ میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘[2] اس حدیث کی شرح میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب یہ چیزیں پانچ سے بڑھ جائیں تو ان میں زکوٰۃ واجب ہے۔ اس حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے اس کا مالک اس وعید کی زد میں نہیں آتا اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد بچ جانے والے مال کو کنز سے موسوم نہیں کیا جائے گا۔[3] میں نے اپنی کتاب ’’عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ‘‘ میں دلائل و براہین سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو جلاوطن نہیں کیا تھا، انہوں نے ان سے ربذہ منتقل ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے اس کی اجازت دے دی۔ مگر اعدائے عثمان رضی اللہ عنہ نے گروہی تعصب سے کام لیتے ہوئے ان پر یہ الزام لگا دیا کہ انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے نکال دیا تھا۔ جب غالب القطان نے حسن بصری سے یہ سوال کیا: کیا عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے نکال دیا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: معاذ اللہ، ہرگز نہیں۔[4] جن روایات میں یہ بتایا گیا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ سے نکال دیا تھا تو وہ تمام کی تمام ضعیف الاسناد ہیں اور ان میں کوئی نہ کوئی علت ضرورت پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا متن بھی قابل انکار ہے اس لیے کہ وہ ان صحیح اور حسن روایات کے مخالف ہے جو یہ بتاتی ہیں کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے ربذہ منتقل ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے
Flag Counter