Maktaba Wahhabi

64 - 503
خلاف لڑی گئی جنگ میں بنو امیہ کے حلیف عکاشہ بن محصن شریک ہوئے۔[1] اور ان کے ایک دوسرے حلیف العلاء الحضرمی نے بحرین میں مرتدین کی طرف سے بھڑکائی گئی جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کے عمل میں بھرپور کردار ادا کیا اور آخر کار کامیابی سے نوازے گئے۔[2] ارتدادی جنگوں کے خاتمہ، مرتدین کو دائرہ اسلام میں واپس کرنے اور خلافت راشدہ کی ماتحتی قبول کرنے کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ محکوم اقوام کو ان کی ظالم حکومتوں کے پنجہ استبداد سے رہائی دلائی جائے اور انہیں اسلام کی دعوت دی جائے، چنانچہ تاریخ کی زبان میں ایران و روم کے دو محاذوں پر ’’فتوحات کبریٰ‘‘ کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اور ان جنگوں میں بھی بنو امیہ نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ جس سے اس موقف کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ان کی اسلام سے بڑی گہری وابستگی تھی اور یہ کہ انہوں نے اس عرصہ کے دوران بڑا اہم اور تاریخی کردار ادا کیا۔ اس عرصہ کی اسلامی فتوحات کی تحریک کے دوران دو امور خاص طور سے ابھر کر سامنے آئے [3]: ۱۔ اس دور کی اسلامی فتوحات کے دوران فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والوں اور اس موقع پر آزاد کردہ لوگوں نے بڑا عظیم کردار ادا کیا۔ ان میں بنو امیہ کے بعض لوگ بھی شامل تھے اور ان کا یہ کردار دو اسباب کی وجہ سے متوقع تھا: ا: سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ کہ اسلام سے مرتد ہو کر دوبارہ حلقہ اسلام میں داخل ہونے والوں سے فتوحات کے دوران ہرگز کوئی تعاون حاصل نہ کیا جائے۔[4] اس کی وجہ صدیق اکبر کا اس بات کا حریص ہونا تھا کہ ان فتوحات اسلامیہ کو دین کی کمزوری کے آثار اور ان لوگوں کی نفسانی شہوات سے صاف رکھا جائے جو دین اسلام کے لیے مخلص نہیں ہیں یا انہوں نے اس کے لیے اپنے مخلص ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ بنابریں ان اشراف و سادات کو یہ شوق دامن گیر ہوا کہ انہیں اسلامی خدمات کے حوالے سے اپنی تقصیر کا ازالہ کرنا اور ان کے جو بھائی ان سے پہلے مسلمان ہو کر عظیم مراتب حاصل کر چکے ہیں ان کی صفوں میں شامل ہونا ہے۔[5] ب: فتوحات اسلامیہ کے سلسلہ میں شام کے محاذ پر اموی رجال کار کی گراں قدر سرگرمیاں ہیں۔ اس محاذ پر اہل مکہ میں سے فاتحین کی کثیر تعداد بھی ان کے ہم رکاب تھی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ بات خلیفۃ المسلمین صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پیش نظر تھی جنہیں اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ بنو امیہ، اہل مکہ اور ان عرب قبائل کے درمیان بڑے گہرے تعلقات ہیں جو اس وقت سرزمین شام میں رہائش پذیر ہیں اور جو زمانہ جاہلیت میں مکہ اور شام کے درمیان مسلسل تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے مزید مستحکم ہو گئے تھے اور ان کی تجارت کی
Flag Counter