Maktaba Wahhabi

62 - 503
کے مقام پر خیمہ زن تھا اور جب کہ ان کے اسلام کا نور ان کی قوم کے افراد کو صلح و آشتی کا پیغام دے رہا تھا۔ رہے، ان کے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ تو بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی فتح مکہ سے قبل مسلمان ہو چکے تھے مگر انہوں نے بھی اس وقت بعض دوسرے لوگوں کی طرح اپنے اسلام کو مخفی رکھا۔ مروی ہے کہ وہ عمرۃ القضاء کے دن یا صلح حدیبیہ کے سال مخفی طور سے مسلمان ہو گئے تھے۔[1] مورخین کی طرف سے انہیں طلقاء کی فہرست میں شامل کرنے کی وجہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا فتح مکہ کے قریب مسلمان ہونا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ وہ مکہ مکرمہ کے سردار تھے اور ان کا اسلام اہل مکہ کے اسلام کے ساتھ مربوط تھا، مزید براں ان کے اسلام قبول کرنے کا چرچا فتح مکہ کے بعد ان آزاد کردہ لوگوں کے ساتھ ہوا تھا۔ ۳۔ وصف طلقاء مذمت کا متقاضی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادی کا پروانہ عطا فرمایا۔ ان لوگوں کی تعداد تقریباً دو ہزار تھی اور ان میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کا شمار بہترین مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ مثلاً حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابو جہل، یزید بن ابوسفیان، حکیم بن حزام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاد ابوسفیان بن حارث۔ یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیہودہ گفتگو کیا کرتا تھا۔ مگر بعد ازاں اس کا اسلام بہت خوب رہا۔ ان لوگوں میں عتاب بن اسید بن شامل تھے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اس کا والی مقرر فرما دیا تھا۔ علاوہ ازیں کتنے ہی ایسے لوگ تھے جن کا اسلام بہت خوب اور قابل تعریف رہا تھا۔ ۴۔ مشرف باسلام ہونے والوں کے بارے میں اسلامی نکتہ نظر یہ ہے کہ اسلام ماقبل کے تمام گناہوں کو ملیامیٹ کر دیتا ہے۔ وہ ان لوگوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کے لیے میدان عمل کو کھلا چھوڑ دیتا ہے اور پھر عظیم تر مقاصد کے حصول کے لیے انہیں اس میں آزادانہ کام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس کے لیے وہ لوگوں کو ان کے مقام و مرتبہ پر فائز کرتا ہے۔ اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ جو لوگ قبل از اسلام اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ دین میں سوجھ بوجھ پیدا کر لیں اور دینی شعور حاصل کر لیں۔ یہ انہیں سنہری تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ خالد بن ولید اور عمرو بن العاص کو ان کے اسلام کے متاخر ہونے نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اعلیٰ مقام و مرتبہ کے حصول سے باز نہیں رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو سیف اللہ کے لقب سے ملقب کیا اور عمرو بن العاص کو ذات السلاسل کا امیر مقرر فرما کر بھیجا۔ مگر اس کے باوصف مخلصانہ انداز میں اسلام کی طرف سبقت لے جانے والے اہل ایمان کے اعلیٰ ترین اور عظیم ترین مقام و مرتبہ کی پورے طور پر حفاظت کی اور اسے کسی بھی صورت متاثر نہیں ہونے دیا۔ ان سابقین الی الاسلام میں بنو امیہ کے لوگ بھی شامل تھے اور دوسرے بھی۔ جس طرح کہ ان آزاد کردہ لوگوں میں بھی بنو امیہ وغیرہم کے متعدد لوگ شامل تھے۔[2]
Flag Counter