Maktaba Wahhabi

61 - 503
ہے۔ اب مجھے کسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[1] اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن سعید بن العاص کو خیبر، وادی القری، تیماء اور تبوک کا والی مقرر فرمایا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اس منصب پر قائم رہے۔[2] آپ نے ابان بن سعید بن العاص کو بحرین کا عامل مقرر فرمایا وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت تک اس منصب پر کام کرتے رہے۔[3] آپ نے حکم بن سعید بن العاص کو سوق مکہ[4] اور ان کے بھائی خالد بن سعید کو صنعاء کا عامل مقرر فرمایا۔[5] خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک بنو امیہ کے سرکردہ لوگ ولایت، کتابت اور تحصیل داری جیسے اعلی مناصب پر فائز تھے، اور ان عہدوں پر ان کی تعداد دوسرے تمام قبائل کے افراد سے زیادہ تھی۔[6] اور یہ ان کی امانت و دیانت اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کی دلیل ہے۔[7] رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد: ((اِذْہَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَائُ))’’جاؤ کہ تم آزاد ہو‘‘[8] تو بعض لوگوں نے ان کلمات کو گالی قرار دیتے ہوئے صرف بنو امیہ کی پیشانی پر چپکا دیا اور انہیں یہ کہہ کر عار دلانے لگے کہ وہ آزاد کردہ اور آزاد کردہ لوگوں کے بیٹے ہیں۔ مگر وہ اپنے خبث باطن کی وجہ سے یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ مشرف باسلام ہوئے بلکہ ان کا اسلام بہت خوب بھی رہا۔ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی اسلام کی نصرت و حمایت میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور بعد ازاں خلفاء راشدین کے دور مسعود میں بھی فتوحات اسلامیہ کے دوران بھی قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔[9] ہم اس جگہ وصف طلقاء کے بارے میں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا چاہیں گے: ۱۔ یہ تہمت شدید گروہی اختلافات کے زمانہ کی پیداوار ہے۔ جب خلافت عثمانیہ کے آخری ایام میں بنو امیہ کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر دیا گیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی قسمت کا ستارہ بلندیوں کو چھونے لگا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا اختلاف سنگین صورت حال اختیار کر گیا تو اس دوران بنو امیہ کی طرف سے ان پر یہ تہمت لگا دی گئی کہ یہ لوگ ضعیف الایمان ہیں اور انہوں نے محض مالی مفادات کے لیے اور اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے اسلام قبول کیا تھا تاکہ اس طرح وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں کے جال بچھا سکیں اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کو یقینی بنا سکیں۔ ۲۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار طلقاء میں نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے قبل اس وقت مسلمان ہو گئے تھے جب آنحضرت اور ان کے ہمراہ آنے والا لشکر اسلام مکہ مکرمہ سے باہر مر الظہران
Flag Counter