Maktaba Wahhabi

488 - 503
چاہیے۔[1] تو معاویہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ملاقات کے بعد منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ، ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور ابن ابوبکر رضی اللہ عنہما نے یزید سے بیعت نہیں کی، انہوں نے سمع و طاعت کی ہے اور یزید سے بیعت کر لی ہے۔ اس پر اہل شام کہنے لگے: و اللہ! ہم تو اس وقت راضی ہوں گے جب یہ لوگ لوگوں کے سامنے بیعت کریں گے اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ہم ان کی گردنیں اڑا دیں گے۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے کہا: یہیں رک جاؤ، لوگ قریش کے ساتھ کس قدر جلد بدسلوکی کا مظاہرہ کرتے ہیں، میں آج کے بعد یہ بات کسی کے منہ سے نہ سنوں۔ پھر وہ منبر سے نیچے اتر آئے اور لوگ کہنے لگے: ابن عمر رضی اللہ عنہما ، ابن ابوبکر رضی اللہ عنہما اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیعت کر لی ہے جبکہ وہ اس سے انکار کرتے رہے اور معاویہ رضی اللہ عنہ شام چلے گئے۔[2] اس صحیح روایت سے اس روایت کا جھوٹ عیاں ہوتا ہے جو معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات سے متہم کرتی ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، عبدالرحمن بن ابوبکر اور حسین بن علی رضی اللہ عنہم میں سے ہر آدمی کے سر پر دو دو آدمی بٹھا دئیے اور ہر پہرے دار کو یہ بات سمجھا دی کہ ان میں سے جو شخص بھی بیعت سے انکار کرے اس کی گردن اڑا دی جائے، چنانچہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ابن عمر، ابن زبیراور ابن ابی بکر نے بھی طاقت استعمال کرنے کی دھمکی کی وجہ سے یزید سے بیعت کر لی۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے تو ضعیف ہے ہی متن کے اعتبار سے بھی ضعیف ہے اور جو باریک بینی پر مبنی تنقید کا سامنا نہیں کر سکتی۔[3] مثلاً اس روایت کے شروع میں وارد ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو وہ اپنے محافظ سے کہنے لگے: میرے سوار کردہ آدمی کے علاوہ کسی کو بھی میرے ساتھ نہ چلنے دینا۔ پھر وہ تن تنہا چلنے لگے یہاں تک کہ جب وہ پیلو کے درختوں کے درمیان پہنچے تو حسین بن علی رضی اللہ عنہما ان کی ملاقات کے لیے آئے، آپ رک گئے اور فرمانے لگے: ہم جگر گوشۂ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان نوجوانوں کے سردار کو خوش آمدید کہتے ہیں، پھر انہوں نے ابو عبداللہ کو سوار کرنے کے لیے سواری منگوائی، پھر عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما تشریف لائے تو انہیں بھی خوش آمدید کہا اور پھر انہیں سواری پر بٹھایا، پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہما تشریف لائے تو آپ نے انہیں بھی اہلاً و سہلاً و مرحبا کہا اور پھر ان کے لیے سواری منگوائی جس پر وہ سوار ہو گئے، اور یوں انہوں نے مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسک حج ادا کیے۔[4] اس روایت کے دوسرے حصے میں جو یہ بتایا گیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہر آدمی کے سر پر دو پہرے دار بٹھا دئیے اور انہیں حکم دیا کہ ان میں سے جو شخص بھی بیعت یزید سے انکار کرے اس کا سر قلم کر دیا جائے، تو یہ دو امور کی وجہ سے ناممکن ہے:
Flag Counter