Maktaba Wahhabi

487 - 503
د:… حسین بن علی رضی اللہ عنہما: گزشتہ روایت ان لوگوں کے ضمن میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کرتی جن کے ساتھ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کے بارے میں مشورہ کیا تھا۔ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اہل عراق اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے تعلقات کا ادراک تھا اور یہ کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھتے رہتے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد انہیں خلافت کی امیدیں دلاتے رہتے ہیں، پھر یہ بات بھی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے طویل گفتگو کی جو کہ بظاہر خلافت کے بارے میں ہی تھی اور یہ ایسی بات تھی جس نے یزید کو ناراض کر دیا اور وہ اپنے باپ سے کہنے لگا: یہ آدمی تمہارے راستے میں روڑے اٹکاتا رہتا ہے۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اسے چھوڑیں، شاید یہ میرے علاوہ کسی اور سے خلافت کا مطالبہ کرے مگر وہ اسے اس میں کامیاب نہ ہونے دے اور اسے قتل کر ڈالے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیعت یزید سے دو اسباب کی وجہ سے انکاری تھے: الف: یزید اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان باپ بیٹے کا تعلق تھا اور یہ خلفائے راشدین کا طریقہ نہیں تھا۔ ب: انہوں نے اس بیعت کے بطلان اور اس کے ردّ کرنے پر اس نص صریح سے استدلال کیا جو ایک ہی وقت میں دو آدمیوں سے بیعت کرنے کو ناجائز قرار دیتی ہے۔ اس جگہ جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ معارضین نے یزید میں کسی عیب کا ذکر نہیں کیا تھا۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ یزید کی ان صفات سے ناواقف رہتے جن کے ساتھ بعد ازاں اسے متہم کیا گیا اور خاص طور پر اس وقت جو اس امر کا متقاضی تھا کہ اس میں مخالف کی ہر دلیل کا توڑ کیا جاتا۔[2] حقیقت یہ ہے کہ بعض لوگوں میں اور خاص طور پر مہاجرین کے بیٹوں میں یہ شعور بڑا قوی تھا کہ جو معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے وہ مسلمانوں کی خلافت کس طرح سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ وہاں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان سے پہلے مشرف باسلام ہوئے اور جو اُن سے خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔[3] جبکہ بعض لوگ عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تعبیر میں قیصریت و ہرقلیت کے خوف سے یزید کی تقدیم پر معترض تھے۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ بیعت یزید پر ابنائے صحابہ کی تنقید کا تعلق یزید کی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ یہ ان کا اپنا اپنا نکتہ نظر ہے جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا نکتہ نظر ان سے مختلف ہے اور یہ کہ ان لوگوں کا موقف یہ ہے کہ منصب خلافت میں خاندانی تعلقات یا ذاتی رجحانات کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور خلیفہ کی قدر و قیمت اور اس کا انتخاب اس سے سابق خلیفہ کے ساتھ اس کے تعلق پر مبنی نہیں ہونا
Flag Counter