Maktaba Wahhabi

474 - 503
کی یہ علت بیان کی ہے کہ جانوروں نے اسلامی لشکر کے شوروغل کو سنا تو وہ گھبرا گئے اور پھر گھبراہٹ کے عالم میں اپنے بچوں کو اٹھایا اور جنگل سے بھاگ کھڑے ہوئے مگر یہ تاویل انتہائی حیران کن ہے۔ اس قسم کے باحثین اس چیز کو ردّ کرنے میں کوئی دیر نہیں لگاتے جسے عقل مجرد تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہو، مگر اس جگہ وہ صحیح تفکر کو پس پشت ڈال دیا کرتے ہیں، وہ مؤرخین کی اس رائے کو بھی تسلیم نہیں کرتے جو اس اور اس جیسے دیگر واقعات کو خارق عادت امور کے طور پر روایت کرتے ہیں اور وہ انہیں اس بنا پر سادگی کے ساتھ متہم کر دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کی زندگی میں پیش آنے والے عادی امور و واقعات کو قصے کہانیوں سے مشابہ قرار دے دیتے ہیں۔ فکر صحیح کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کی یہ تاویل عقل سلیم کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے، اس لیے کہ وحشی درندے اور خشکی کے جانور خوف زدہ ہونے پر اپنے پر امن ٹھکانوں اور بلوں کی طرف بھاگتے ہیں نہ کہ باہر کی طرف۔ پھر اگر لشکر اسلام سے خوفزدہ ہو کر ان کا بھاگ جانامعمول ہی تھا تو اس میں تو بربر قبائل کو حیران کرنے والی اور انہیں قبول اسلام پر آمادہ کرنے والی کوئی بات نہیں تھی۔ نیز اس میں کوئی ایسی بات بھی نہیں تھی جو مؤرخین کی ایک جماعت کو اس حیران کن واقعہ کو روایت کرنے پر آمادہ کرتی۔ زیاد بن عجلان سے مروی ہے کہ اس واقعہ کے چالیس سال بعد تک بھی اگر اہل افریقہ ایک ہزار دینار کے بدلے ایک سانپ یا بچھو تلاش کرنا چاہتے تو وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکتے۔[1] حضرت عقبہ کا خواب اور دوران خواب قبلہ کی تحدید ان کی دوسری کرامت ہے۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی اس مشکل کو آسان بنا دیا کہ وہ ابھی تک قبلہ کی تحدید کرنے سے قاصر رہے تھے۔ یہ بھی ایک مقصد ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے نیک اولیاء کے ہاتھوں ان کی کرامت کو ظاہر فرمایا کرتا ہے۔ حضرت عقبہ مستجاب الدعوات شخص تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے ان کی اور مسلمانوں کی پریشانی کا ازالہ فرما دیا۔[2] اہل السنہ و الجماعہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی کرامات کا اثبات کرتے ہیں۔ اولیاء اللہ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار ہوتے ہیں اور اللہ کے اوامر و نواہی کا التزام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کے ساتھ ان کی تائید کرتا اور ان کے دلوں میں اپنے انوار رکھ دیتا ہے۔ ان سے کچھ ایسی کرامات کا صدور ہوتا ہے جن کے ساتھ اللہ عزوجل اپنے متقی اولیاء کی تکریم کرتا ہے۔ اولیائے کرام سے کرامات کا ظہور کسی دینی ضرورت یا مسلمانوں کی ضرورت کے پیش نظر ہوا کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں معجزات کا صدور بھی انہی مقاصد کے لیے ہوا کرتا ہے۔ اولیائے کرام کے ہاتھوں کرامات کا حصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی برکت کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔[3] اس بات سے آگاہ رہنا ضروری ہے کہ کبھی کرامات کا ظہور لوگوں کی ضروریات کی وجہ سے بھی ہوا کرتا ہے۔ ضعیف الایمان یا کوئی ضرورت مند شخص جب اپنی آنکھوں سے کرامات کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے یا اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے جبکہ اس سے زیادہ کامل الایمان شخص کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ
Flag Counter