Maktaba Wahhabi

461 - 503
میں اس کا وجود ڈانواں ڈول ہو گیا اور پھر جب ولید بن عبدالملک کی حکومت کا دور آیا تو شمالی افریقہ سے اس کا اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گیا۔ ۶۔ خوشحال لوگوں کے بارے میں سنت الٰہیہ:… ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوْا فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیْرًاo﴾ (الاسراء: ۱۶) ’’اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر عذاب کی بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوا ہے کہ جب اس بستی کی ہلاکت کا وقت قریب آیا تو ہم نے اس کے خوشحال لوگوں، یعنی بادشاہوں اور سخت گیروں کو حکم دیا تو وہ اس میں بدکاریاں کرنے لگے، اس طرح اس کے خلاف ہمارا فیصلہ ثابت ہو گیا اور اسے ہلاکت سے دوچار کر دیا گیا، اللہ رب کائنات نے خوشحال لوگوں کا خاص طور پر ذکر کیا، حالانکہ اطاعت گزاری کا حکم سب کے لیے ہوتا ہے، اس لیے کہ فسق و فجور کے امام اور گمراہی کے رؤسا وہی ہوتے ہیں، اور جو کچھ دوسروں نے کیا وہ ان کی متابعت اور اغوا کاری کی وجہ سے ہوا، لہٰذا انہیں زیادہ تاکید سے حکم دیا گیا۔[1] اللہ تعالیٰ کی یہ سنت بلاد فارس میں فارسیوں کے ائمہ و زعماء میں جاری ہوئی اور شام، مصر اور شمالی افریقہ میں زعماء روم میں۔ ۷۔ سرکشی اور سرکش لوگوں کے بارے میں سنۃ اللہ:… اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ﴾ (الفجر: ۱۴) ’’یقینا آپ کا رب گھات میں ہے۔‘‘ یہ آیت نافرمان لوگوں کے لیے وعید ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ نافرمانوں کے لیے بھی وعید ہے اور دوسروں کے لیے بھی۔[2] تفسیر قرطبی میں ہے: وہ سب لوگوں کے اعمال دیکھ رہا ہے اور وہ سب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔[3] مفسرین کے تفسیری اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ سرکش لوگوں کے بارے میں اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دنیا میں ان پر عذاب اتارتا ہے، اور یہ طے شدہ طریقہ ہے جو گزشتہ سرکش لوگوں پر بھی نافذ ہوا اور موجودہ اور آئندہ آنے والے سرکشوں پر بھی نافذ ہو کر رہے گا اور ان میں سے کوئی بھی اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکے گا۔[4] مگر اس سے عبرت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بخوبی علم رکھتے ہیں
Flag Counter