Maktaba Wahhabi

449 - 503
﴿وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌo﴾ (لقمٰن: ۳۴) ’’کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ یقینا اللہ ہی پورے علم والا اور صحیح خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ پھر سعید بن عثمان نے ’’ترمذ‘‘ کا رخ کیا اور اسے صلح کے ذریعے فتح کر لیا۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ نے ۵۷ھ میں انہیں معزول کر دیا تو سعید نے خراسان کے خراج پر قبضہ جما لیا جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے واپس لے لیا۔[2] سعید اپنے پاس گروی رکھے گئے عظماء سمرقند کے بچوں کو اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے گئے، ان کے کپڑے اتار کر ان کے موالی کے حوالے کر دئیے اور انہیں اونی لباس پہنا کر آب پاشی اور زمین کے کام کاج میں لگا دیا۔[3] وہ ایک دن باغ کا دروازہ بند کر کے ان پر ٹوٹ پڑے پہلے انہیں قتل کیا اور پھر اپنے آپ کو قتل کر ڈالا۔[4] اس پر خالد بن عقبہ بن ابو معیط اموی[5] نے کہا: الا إن خیر الناس نفسا و والدا سعید بن عثمان قتیل الا عاجم فان تکن الایام اردت صروفہا سعیدا فہل حیّ من الناس سالم؟ ان کے مرثیہ میں خالد ہی کا شعر ہے: یا عین جودی بدمع منک تہتانا و ابکی سعید بن عثمان بن عفانا سعید نے اہل سمرقند کے ساتھ گروی رکھے گئے بچوں کو واپس کرنے کے عہد کو پورا نہ کیا اور انہیں اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے آئے اور پھر انہیں مٹی گارے کے کام پر لگا دیا، جبکہ وہ سرداروں اور ناز و نعمت میں پلنے والے لوگوں کے بیٹے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس قسم کی مشقت برداشت نہ کر سکے اور آخر کار اپنی زندگی سے اکتا گئے۔[6] پہلے انہیں قتل کیا اور پھر اپنی زندگیوں کے چراغ گل کر ڈالے، یہ سعید کا ان کے ساتھ غدر تھا جو ان کے لیے وبال جان ثابت ہوا اور اس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔[7] سعید بن عثمان بڑے غیور انسان تھے، ناز و نعمت میں پلنے والے اور بڑے سخی تھے۔ ان کا شمار قریش کی
Flag Counter