Maktaba Wahhabi

448 - 503
سعید نے خراسان آمد کے بعد سمرقند جانے کے لیے نہر عبور کی تو اس کی خبر ملکہ بخاریٰ کو بھی ہو گئی، اس نے ابن زیاد کے ساتھ اپنی صلح کے بارے میں آگاہ کیا۔ صغد، کش اور نسف کے لوگ ایک لاکھ بیس ہزار کی تعداد میں آگے بڑھے اور بخاریٰ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، ملکہ بخاریٰ جزیہ کی ادائیگی پر نادم ہوئی اور ابن زیاد سے کیا گیا معاہدہ توڑ دیا، مگر سعید کے ساتھ لڑائی کے لیے آنے والے لشکر میں سے کئی لوگ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی واپس چلے گئے اور ان کی واپسی دوسرے لشکریوں کی معنویات پر بھی اثر انداز ہوئی۔ جب ملکہ نے یہ صورت حال دیکھی تو اس نے صلح بحال کر دی اور سعید بخاری شہر فاتح کی حیثیت سے داخل ہو گئے۔ سعید نے ملکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے علاقے کے اسّی سرکردہ لوگوں کو ان کے پاس بھیجیں اور یہ ان لوگوں میں سے ہوں جو اس کے خلاف خروج کرنے کی قیادت کر رہے تھے اور وہ ان کی غداری سے ڈرتی ہے اور اپنے اور اپنے تخت کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے، اس طرح وہ اپنے حاضر اور مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہونے والے اپنے دشمنوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ جب سعید اور ملکہ بخاریٰ کے درمیان صلح کا معاہدہ مکمل ہو گیا تو وہ ان سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ پر آئی اس وقت وہ اپنی شاہانہ زیب و زینت میں تھی اور جیسا کہ کہا جاتا ہے وہ حسن و جمال میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی تھی۔ اہل بخاریٰ کا دعویٰ ہے کہ مسلمان کمانڈر اس کی خوبصورتی سے بڑے متاثر ہوئے۔ سعید کی طرف سے اس کی پسندیدگی کے چرچے تو لوک گیتوں میں ہوتے رہے جنہیں اہل بخاریٰ آج تک گاتے چلے آئے ہیں۔ مگر قابل اعتماد اسلامی عربی مصادر میں ان کا کہیں ذکر نہیں ملتا، بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ تاریخی حقائق سے زیادہ ادباء و شعراء کی خیال آفرینی ہے۔ سعید نے سمرقند سے جنگ کی تو ملکہ نے اہل بخاریٰ کے ساتھ ان کی مدد کی، جب وہ سمرقند کے دروازے پر اترے تو قسم اٹھائی کہ وہ شہر کو فتح کرنے تک یہاں سے نہیں ٹلیں گے۔ مسلمان تین دن تک اہل سمرقند سے لڑتے رہے جبکہ تیسرے دن گھمسان کا رن پڑا جس دوران سعید کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ سمرقند کے شہریوں نے صلح کا مطالبہ کیا تو سعید نے سات لاکھ درہم کے بدلے ان سے صلح کر لی، اس صلح کی دوسری شرط یہ تھی کہ وہ اپنے روساء کے پچیس بچے ان کے حوالے کر دے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے ان کی تعداد چالیس تھی جبکہ ایک روایت میں ان کی تعداد اسی بتائی گئی ہے۔[1] اس وقت ان کے ساتھ امراء میں سے مہلب بن ابو صفرہ ازدی وغیرہ بھی تھے۔ قثم بن عباس بن عبدالمطلب نے اسی موقع پر جام شہادت نوش کیا جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑی گہری مشابہت رکھتے تھے۔[2] ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما طائف میں مدفون ہوئے جبکہ ان کے ایک اور بھائی افریقہ میں شہادت کی موت سے ہمکنار ہوئے جبکہ عبیداللہ کی قبر مدینہ منورہ میں ہے۔ یہ تمام بھائی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔[3] (مگر وفات مختلف علاقوں میں ہوئی)ارشاد ربانی ہے:
Flag Counter