Maktaba Wahhabi

437 - 503
ج: حصول علم کی جستجو میں لگے رہنا اور اس کے لیے پرہیز گار اور متقی علماء کا انتخاب کرنا اور دنیا دار اور جاہ پرست مغرور علماء سے دور رہنا، اس لیے کہ دنیا پرست علماء متعلم کو مزید جہالت سے دوچار کرتے ہیں بایں طور کہ وہ اسے علم کی حقیقت اور اس کے ثمر سے دور لے جاتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ سے عبارت ہے۔[1] جب حضرت عقبہ اپنی اولاد کو پند و نصائح اور وصیت کرنے سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں الوداعی انداز میں سلام کہتے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کے خواہش مند تھے اور پھر آگے چل کر فرماتے ہیں کہ میرے اللہ! میری جان کو اپنی رضا کی راہ میں قبول فرما۔ جہاد کو میرے لیے باعث رحمت بنا اور اپنے پاس میری عزت کا گھر تیار فرما۔[2] جہاد فی سبیل اللہ کو اس قدر اہمیت دینے اور اسے اس زندگی میں سب سے بڑا فریضہ قرار دینے کی وجہ سے ہی وہ فتوحات میں مسلسل کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے چلے گئے۔[3] عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ باغی شہر کی طرف روانہ ہوئے۔[4] جہاں انہیں ان بیزنطیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو شہر میں داخل ہو کر اس میں قلعہ بند ہو گئے تھے انہوں نے کچھ عرصہ تک ان کا محاصرہ کیے رکھا اور پھر تلمسان کی طرف روانہ ہو گئے جس کا شمار ان کے بڑے بڑے شہروں میں ہوتا تھا، رومی اور بربر قبائل کے لوگ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے نکلے اور پھر گھمسان کی جنگ چھڑ گئی، فریقین جم کر لڑے یہاں تک کہ مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اس جنگ میں ان کی تباہی یقینی ہے مگر انہوں نے بڑے صبر اور حوصلہ کا مظاہر کرتے ہوئے رومیوں پر اس قدر زور دار حملہ کیا کہ وہ اپنے قلعوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے مگر مسلمان سپاہ نے ان کے دروازوں تک ان کا تعاقب کیا اور ان سے بہت سارا مال غنیمت حاصل کیا۔[5] پھر انہوں نے بلاد زاب جانے کے لیے مغرب کا رخ کیا، جب انہوں نے اس علاقے کے سب سے بڑے شہر کے بارے میں دریافت کیا، تو انہیں بتایا گیا کہ اس کا نام ’’ اَرَبَہ‘‘ ہے جو کہ ان کا دار الحکومت ہے۔ اس شہر کے اردگرد تین سو ساٹھ بستیاں تھیں اور وہ ساری کی ساری آباد تھیں۔ اہل مدینہ اور اس میں موجود رومی شہر میں محفوظ ہو کر بیٹھ گئے جبکہ کچھ لوگ پہاڑوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے شہر کے باسیوں سے جنگ کی اور پھر انہیں شکست سے دوچار کر دیا اور ان کے بہت سارے شہسوار مارے گئے۔ پھر عقبہ نے ’’تاہرت‘‘ کی طرف پیش قدمی کی، رومی بربر سے مدد کے خواستگار ہوئے تو وہ اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ عقبہ بن نافع خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: لوگو! تمہارے اشراف اور بہترین لوگ وہ تھے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور ان میں اپنی کتاب اتاری انہوں نے
Flag Counter