Maktaba Wahhabi

389 - 503
کرنے کے لیے کہا جائے تو میں ایسا نہیں کر سکوں گا، اس لیے کہ میں نے آپ کو آنکھیں بھر کر دیکھا ہی نہیں تھا، اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو میں اپنے جنتی ہونے کی امید کر سکتا تھا۔[1] دوسری روایت میں آتا ہے: اس کے بعد میں حکومت اور دیگر چیزوں میں مصروف ہو گیا، مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب کچھ میرے خلاف جائے گا یا میرے حق میں رہے گا۔ جب میں مر جاؤں تو کوئی رونے والی مجھے مت روئے، میرے پیچھے کوئی تعریف کرنے والا نہ آئے اور نہ ہی میرے پیچھے آگ ہو، میری چادر کس کر باندھنا اس لیے کہ مجھ سے جھگڑا کیا جائے گا، مجھ پر اچھی طرح مٹی ڈالنا اس لیے کہ میرا دایاں پہلو میرے بائیں پہلو سے مٹی کا زیادہ حق دار نہیں ہے۔ میری قبر میں لکڑی اور پتھر نہ رکھنا، جب مجھے مٹی میں چھپا دو تو اونٹ ذبح کرنے اور اسے کاٹنے کے وقت تک میرے پاس بیٹھنا میں تمہاری وجہ سے انس محسوس کروں گا۔[2] صحیح مسلم کے الفاظ ہیں: تاکہ مجھے تمہاری وجہ سے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ اپنے رب کے قاصدوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔[3] دوسری روایت میں ہے: اس کے بعد انہوں نے اپنا منہ دیوار کی طرف کر لیا اور پھر کہنے لگے: یا اللہ! تو نے ہمیں حکم دیا، مگر ہم نے تیری نافرمانی کی، تو نے ہمیں منع کیا مگر ہم باز نہ آئے، اب ہمیں صرف تیری رحمت ہی کی امید ہے، ایک اور روایت میں ہے: انہوں نے گردن پر ہاتھ رکھا، سر آسمان کی طرف اٹھایا اور کہنے لگے: یا اللہ! میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے کہ میں اپنی مدد کر سکوں، میں بے گناہ نہیں ہوں میری معذرت قبول فرما، میں تکبر کرنے والا نہیں بلکہ مغفرت طلب کرنے والا ہوں، پھر آپ مسلسل لا الہ الا اللہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ کی موت واقع ہو گئی۔[4] ۲۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی ولایت:… حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ۴۳ھ میں عید الفطر کی رات فوت ہوئے، انہوں نے موت سے قبل اپنے بیٹے عبداللہ کو نماز اور خراج کے لیے اپنا جانشین مقرر کیا،[5] جب ان کی وفات کی خبر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملی تو انہوں نے ان کے بھائی عتبہ کو مصر کا والی متعین کر دیا، یہ ذوالقعدہ ۴۳ھ کا واقعہ ہے۔[6] اس کا مطلب یہ ہوا کہ عبداللہ بن عمرو تقریباً دو ماہ تک مصر کے والی رہے، اور یہ وہ مدت ہے جس کے دوران عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچی اور پھر نئے والی کے تقرر کا فیصلہ ہوا۔[7] امام ذہبی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے اوصاف گنواتے ہوئے فرماتے ہیں: ابو محمد یا
Flag Counter