Maktaba Wahhabi

388 - 503
بیان کیا ہے۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے فوری قصاص کے مطالبہ میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینا ان کی ذات کے ساتھ کسی ساز باز کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اس مسئلہ میں ان کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ تھا جس کی رو سے ان کا موقف تھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے فوراً قصاص لینا ضروری ہے اور ان کا یہ موقف اس قضیہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے موقف سے ہم آہنگ تھا۔[1] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی مصر پر ولایت ان میں پنہاں بے پناہ صلاحتیوں کی مرہون منت تھی، وہ انتظامی، سیاسی اور فوجی، الغرض ہر اعتبار سے کہنہ مشق انسان تھے۔ انہوں نے شمال افریقہ میں فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور مصر میں تعمیرات، زراعت اور آب پاشی کے معاملات کو منتظم کیا۔[2] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ۴۳ھ میں اپنی وفات تک مصر کے والی رہے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی موت کے وقت وصیت: ابن شماسہ مہری موت کے وقت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم عمرو بن العاص کی موت کے وقت ان کے پاس گئے تو وہ بہت دیر تک روتے رہے اور پھر اپنا رخ دیوار کی طرف پھیر دیا، اس پر ان کا بیٹا کہنے لگا، ابا جان! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ یہ خوشخبری نہیں دی تھی؟ وہ اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: افضل ترین چیز اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، میں تین حالات سے گزرا ہوں۔ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ مجھ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرنے والا کوئی نہیں تھا اور مجھے اس سے بڑھ کر کوئی چیز پسند نہیں تھی کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں انہیں قتل کر ڈالوں، اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقینا جہنم میں جاتا، پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام رکھ دیا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ میں آپ سے بیعت کرنا چاہتا ہوں، اپنا ہاتھ کھولیں۔ اس پر آپ نے اپنا ہاتھ کھول دیا مگر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمرو! کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون سی شرط؟‘‘ میں نے کہا: میری شرط یہ ہے کہ مجھے معاف کر دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ اسلام اپنے سے ماقبل کو ختم کر دیتا ہے، ہجرت اپنے سے ماقبل کو ختم کر دیتی ہے اور حج اپنے سے ماقبل کو ختم کر دیتا ہے۔‘‘ مجھے قبول اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص پیارا نہیں لگتا تھا اور نہ ہی آپ سے بڑھ کر میری نظروں میں کوئی شخص بارعب تھا، میں آپ کے احترام میں آپ کو نظر بھر کر دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا، اگر مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان
Flag Counter